ڈار اور ڈالر کا مقابلہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے، سیاست کا موضوع ہمیشہ سے خبروں کا حصہ رہا ہے۔ بہت سے ایسے سیاسی کردار اس کا حصہ بنے جو ملک میں تبدیلی کا باعث تھے۔

یہ تبدیلی مثبت بھی ہوسکتی ہے اور منفی بھی۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو ہمیشہ اپنے کاموں کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں چاہے بات منی لانڈرنگ، معاشی فیصلوں، دبئی میں جائیدادیں بنانے یا پھر سخت باتوں کی ہو۔

ملکی کرنسی کو مضبوط کرنے کیلئے اسحاق ڈار کے فیصلے مشہور ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد تجزیہ کاروں نے پیشگوئی کی ہے کہ انہیں غیر ملکی ذخائر کو بہتر بنانے، روپے کی قدر میں اضافے پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان واپسی اور وزارتِ خزانہ پر قبضے کی خبریں روپے کی قدر میں اضافے کا باعث تھیں۔

اس سے پتہ چلا کہ اسحاق ڈار کی شہرت کا اصل دعویٰ روپے کا دفاع تھا اور وہ اسے ڈالر کو نیچے لانے کیلئے اقدامات اٹھائیں گھے۔ تاہم روپیہ دوبارہ گرنا شروع ہوا۔ ایک پیشگوئی یہ رہی کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 250 روپے تک جائے گی۔

دوسری جانب اسحاق ڈار کہہ چکے ہیں کہ ڈالر کی منصفانہ قیمت 190 سے 200 روپے کے لگ بھگ ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ مارکیٹ نے 220 روپے سے ری باؤنڈنگ شروع کردی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسحاق ڈار کا تجزیہ درست نہیں تھا۔

جناب اسحاق ڈار نے شاید مہنگائی پر شرحِ مبادلہ کے اثر کا حد سے زیادہ اندازہ لگا لیا۔ اصل مسئلہ جس سے نمٹنے کیلئے انہیں روانہ کیا گیا تھا وہ ڈالر کی قیمت ہی تھی۔ مہنگائی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ووٹر انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہوں گے۔

درآمدی مہنگائی کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیاجاسکتا لیکن یہ یقینی طور پر اتنی بڑی وجہ نہیں ہے جیسا کہ اسحاق ڈار کو محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ حالیہ سیلاب کے مکمل اثرات سے ناواقف ہیں۔ اگرچہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا اچھی خبر ہے تاہم اسحاق ڈار یہ نہیں سمجھ سکتے کہ معیشت کے بنیادی اصول ہی ناقص ہیں۔

کورونا دنیا بھر کے وزرائے خزانہ کی نیندیں اڑا چکا ہے۔ دنیا بھر کی معیشت 2020 میں کم و بیش 4 اعشاریہ 3 فیصد سکڑ گئی۔ یہ دھچکا صرف 2 عالمی جنگوں سے ہی سامنے آیا تھا۔ 2021 میں روس یوکرین عالی جنگ سے بھی عالمی جی ڈی پی کی شرحِ نمو سست رہنے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔

روس یوکرین تنازعہ رواں برس فروری میں شروع ہوا۔ تنازعے کے برے اثرات میں اناج، توانائی، کھاد اور دیگر خام مال کی سپلائی رک جانا شامل ہے۔ روس کی طرف سے سپلائی مغربی پابندیوں کی وجہ سے رک گئی۔ یوکرین سے سپلائی جنگی مسائل کی وجہ سے ناقابلِ رسائی ہے۔

پاکستان جیسے پیٹرول درآمد کرنے والے ممالک درآمدی توانائی کی مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ادائیگیوں کا بگڑتا ہوا توازن بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بنا۔ بڑھتی ہوئی افراطِ زر کے ساتھ مل کر سست اقتصادی ترقی بھی معاشی طور پر جمود کے نام سے جانی جاتی ہے۔ پاکستان اس عالمی جمود کے دوران موسمیاتی تبدیلی یعنی تباہ کن سیلاب کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ تمام تر تمہید وزیر خزانہ کے طور پر اسحاق ڈار کو درپیش چیلنجز کی وضاحت کیلئے باندھی گئی۔

موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا بنیادی سیاسی کام مہنگائی کو لگام دینا ہے اور شاید روپے کی قدر کو بڑھا کر وہ تمام تر مسائل کو نظر انداز کردینا چاہتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ وہی کچھ دہرا سکیں گے جو انہوں نے اپنے آخری دور میں کیا تھا جس کا مقصد مارکیٹ سے ڈالر لینا تھا اور روپے کی قیمت بڑھانے کیلئے استعمال کرنا تھا تاہم اب ایسا نہیں کیاجاسکتا کیونکہ آئی ایم ایف اس کی اجازت نہیں دے گا۔ اس وقت غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اس طرح کی پالیسی کی اجازت دینے کیلئے بہت کم ہیں۔

روپے کو اس کی حقیقی قدر معلوم کرنے کی اجازت دینا ہوگی کہ وہ قدر کیا ہے۔ غیر ملکی تجارت اور ملکی پالیسی دونوں کیلئے متعدد عوامل اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہ علم نہیں کہ اسحاق ڈار اس سلسلے میں کیا نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ اگر اعدادوشمار کا معاملہ حل بھی ہوجائے تو اسحاق ڈار کو اس وقت کیلئے تیار رہنا ہوگا جب روپیہ پھر سے نیچے آنا شروع ہوجائے گا۔

ایک ڈیلر کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار پر امید کی لہر سے برآمد کنندگان نے مارکیٹ میں ڈالر فروخت کیے، جس سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوا۔ ڈالر عالمی کرنسیوں کو کچل رہا ہے جبکہ ہمارے زرِ مبادلہ ذخائر کی پوزیشن تسلی بخش نہیں۔ اس طرح موجودہ منظر نامے میں روپے میں کسی بھی پائیدار تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔

عالمی اور پاکستان کی معیشت کی صورتحال الگ تھلگ نہیں، اسی طرح وزرائے خزانہ کی تبدیلی سے بھی کوئی جادو نہیں ہوا۔ ملک میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور تیل کی گرتی قیمتوں کے تناظر میں پاکستان کی امداد اور تعمیرِ نو کی کاوشوں میں مدد کیلئے عالمی قرض دہندگان سے ڈالر کی آمد کی توقعات نے بھی روپے کی قدر کو کچھ وقت کیلئے مستحکم کرنے میں مدد کی۔

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار روپے کو سہارا دینے کیلئے مرکزی بینک کو آزادانہ طور پر زرِ مبادلہ کو مارکیٹ میں داخل کرنے کیلئے مشہور ہیں تاہم پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ ذخائر اس وقت اس سطح پر آچکے ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات ہی کیلئے کافی ہیں۔ اس وجہ سے مداخلت کا عمل مشکل ہے۔ جاری آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان نے مارکیٹ پر مبنی کرنسی ایکسچینج کے نظام پر رضامندی ظاہر کی اور اس سال کے شروع میں ایک قانون منظور کیا جس سے مرکزی بینک کو مزید خودمختاری مل گئی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ مرکزی بینک حکومت کے دباؤ سے بے نیاز ہے۔ اس سے قبل اسحاق ڈار کے پیشرو مفتاح اسماعیل ایک تکلیف دہ آئی ایم ایف استحکام پروگرام کی پیروی کے حامی تھے جس میں ایندھن اور بجلی کی سبسڈی کو ہٹانا شامل تھا۔ سیاسی لاگت کے ساتھ مہنگائی سال بہ سال 27 فیصد سے زیادہ بڑھنے اور روپیہ تاریخی کم ترین سطح پر گرنے کے باوجود سبسڈی نہ دینے کا فیسلہ کر لیا گیا۔

تاہم حکومت نے بیان جاری کیا کہ آئی ایم ایف نے اشارہ دیا ہے کہ تباہ کن سیلاب کے باعث پروگرام کی شرائط نرم کردی جائیں گی۔ اسحاق ڈار کا بنیادی چیلنج شرحِ مبادلہ کو مستحکم کرنا ہے تاکہ مہنگائی کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کیا جاسکے۔ افراطِ زر پر قابو پانا، روپے کی قدر مستحکم کرنا، کثیر جہتی قرض دہندگان کا اعتماد بحال کرنا اور سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے امداد حاصل کرنا اہم چیلنجز ہیں۔ توانائی اور خوراک کی افراطِ زر پاکستان میں مہنگائی کا بڑا سبب ہے۔ ایندھن کی مہنگائی کم کرنے کا انحصار عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم کی قیمتیں ہیں۔ کم درآمدی قیمتیں وزیرِ خزانہ کو پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی صارفین کو مزید نقصان پہنچائے بغیر بڑھانے کیلئے اعلیٰ پلیٹ فارم فراہم کرسکتی ہیں۔ 

ْ