آج سے کورونا کی چھٹی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رب ذوالجلال نے پاکستان کو بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے اور پاکستان کے عوام کو سوچنے اور سمجھنے کی دنیا میں سب سے منفرد اور الگ صلاحیت بھی عطاء کی ہے جس کی وجہ سے ہم ہر مسئلے کا فوری حل دریافت کرلیتے ہیں، کورونا کو بھی ہم نے ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ حکومت کی مرضی کے بغیر کسی کو چھو بھی نہیں سکتا۔

چین کے شہر ووہان میں کورونا کا وائرس دریافت ہوا تو کسی بھی خاطر خواہ عزت افزائی نہیں کی جس کے بعد اس وباء نے یورپ اور دیگر ممالک کا رخ کیا اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے بھرپور عزت پائی۔

پوری دنیا نے کورونا کی اس وباء کو رام کرنے کیلئے سو سو جتن کئے ،کبھی احتیاطی تدابیر تو کبھی لاک ڈاؤن کے فارمولے اپنائے گئے لیکن کورونا کے اس موذی وائرس کو چین نہ آیا تو اس نے پاکستان کا رخ کرلیا، جہاں حکماء نے ادویات نسخے تیار کرلئے تو کسی نے دھوپ سینک کر کورونا کو مزہ چکھانے کی صلاح دی، کبھی پیاز کے پانی سے کورونا کو دھونے کی راہ بتائی گئی تو کبھی پتوں سے علاج کا ڈھول پیٹا گیا۔

کراچی کا نوجوان میں کورونا کی تشخیص کے بعد ملک میں ایک طوفان برپا ہوگیا، سندھ کے حکمرانوں نے آرام اپنے اوپر حرام کرلیا اور فوراً اسکول بند کرنے کا نادر فیصلہ سنا کر کورونا کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا کیونکہ اگر کورونا ان پڑھ ہوکر اتنی تباہی مچا سکتا ہے تو اسکول جاکر تو پڑھ لکھ کر مزید خطرناک ہوجاتا لیکن سندھ حکومت نے ایک کیس سامنے آنے کے بعد اسکول بند کرکے یہ مشکل حل کردی۔

پاکستان میں دو ماہ تک لاک ڈاؤن کے بعد جب نرمی کی گئی تو ہر شہری کورونا کو محض افواہ قرار دیتا دکھائی دیا اور افواہ ساز فیکٹریاں نے بھی اپنا کام بخوبی نبھایا اور نت نئی کہانیاں سننے کو ملیں کسی نے کہا کہ کورونا ورونا  کچھ نہیں  ہے، ایک بندہ مرا اور اس کو کورونا میں ڈال کر تابوت میں بند کرکے دفنا دیا اور اگلے دن فیملی نے قبر کھدوائی تو لاش نہیں تھی۔

کسی نے کہا کہ ایک بندہ ہارٹ اٹیک سے مرا تو اسپتال والوں نے کہا کہ ایک لاکھ روپیہ لے لو اور لکھ دو کہ کورونا سے مرا ہے۔

کسی نے بتایا کہ ہمارا ایک دور کا رشتہ دار شام کو اسپتال داخل ہوا صبح کال آ گئی کہ کورونا سے مر گیا ہے۔ یہ سب ڈرامہ کر رہے ہیں حکومت بھی ملوث ہے۔

یہ وہ چند باتیں ہیں جو کورونا کو بدمزہ کرنے کیلئے مختلف لوگوں کی زبانوں پر عام تھیں لیکن ان باتوں کا کسی کے پاس کوئی بین ثبوت نہیں تھا سب کا جواب تقریباً ایک جیسا رہا کہ ہم نے کسی سے سنا ہے۔

کورونا کی اس حد تک درگت بنی کہ لوگوں نے وائرس سے ناپسندیدگی کے اظہار کے طور پر وباء سے متاثر ہونے کے باوجود اسپتال کا رخ کرنے کے بجائے انڈر گراؤنڈ ہونے کو ترجیح دی اور کورونا کو غیر اعلانیہ شکست دینے میں  بھرپور کردار ادا کرنے کے عزم کے ساتھ آج پورے ملک میں اس وباء کے جھنڈے گڑھ چکے ہیں اور ملک کا کوئی شہر کوئی قصبہ، کوئی گاؤں، کوئی دیہات اس وباء کے اثرات سے محروم نہیں ہے جو ہم سب کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

کورونا وائرس نے دنیا میں 70 لاکھ کے قریب لوگوں کو اپنی قربت کا شرف بخشا تو ہم پاکستانی  کیسے کسی سے پیچھے رہ سکتے تھے، ہم چاہتے تو پاکستان میں پہلا کیس سامنے آنے کے بعد ان دنوں بیرون ممالک سے آنیوالوں کا مکمل ریکارڈ  نکال کر ان کے ٹیسٹ کرواتے اور اس وباء کو ملک میں پھیلنے سے روک سکتے تھے لیکن پھر ہم دنیا سے پیچھے رہ جاتے جو ہمیں کسی صورت گوارا نہیں۔

اس لئے ہم نے چند کیسز پر تو سخت لاک ڈاؤن لگایا ، خلاف ورزی کرنیوالوں کو حوالات کی سیر بھی کروائی لیکن جب دنیا میں لاکھوں اور پاکستان میں محض چند کیسز سامنے آئے تو ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ہنگامی طور پر لاک ڈاؤن میں نرمی کا شاندار فیصلہ کیا کیونکہ اپنے آپ کو موذی مرض سمجھنے والا کورونا پاکستان پہنچ کر انتہائی سست ہوگیا تھا۔

لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح  پاکستان کا نام بھی دنیا کے نمایاں ممالک میں شامل ہوجائے اور اس مقصد کیلئے ہمیں لوگوں کو پابند کرنا پڑا کہ وہ رات 8بجے کے بجائے اب شام 5بجے ہی دکانیں بند کردیا کریں۔ اس طرح پہلے جو لوگ سکون سے 8 بجے تک دکانوں پر خریداری  کرتے تھے ان میں ایک بھگدڑ مچ گئی ۔ دکانوں پر چار بجے سے پانچ بجے تک ایسا رش لگا کہ لوگ کندھے سے کندھا ملائے کورونا کو ہرانے کیلئے آپس میں باقاعدہ رگڑ کھاتے نظر آئے۔

مخصوص دکانیں کھولنے سے بھی جب بات نہیں  بنی تو بحالت مجبوری ہم نے بازار بھی کھول دیئے اور اللہ کے کرم سے بازار کھلتے ہی بھوک سے بلکتے عوام نے بازاروں میں ایسا ہلا مچایا کہ لوگوں کی کثیر تعداد کو دیکھ کر انتہائی دانشور دماغوں سے ایک ایسی روشنی پھوٹی کہ بازاروں کے داخلی راستوں کوتنگ کردیا گیا ہے تاکہ دو ماہ سے گھروں میں مقید لوگ بازاروں میں سماجی فاصلے کی وجہ سے کسی سے دور نہ رہیں اور چاہتے نہ چاہتے بازاروں میں ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے گزریں۔

ایسی شاندار حکمت عملی شائد ہی کسی اور ملک کی پولیس کے کوڑھ مغز اعلیٰ حکام کے دماغوں میں آئی ہو کہ کورونا کو پکڑنے کیلئے جگہ جگہ ناکہ لگادیئے جائیں۔

پہلے جس سڑک پر بندہ پوری رفتار سے ڈرائیو کرتا جا تا تھا وہاں سخت لاک ڈاؤن میں راستہ اتنا تنگ کردیا گیا کہ جہاں سے صرف ایک ایک گاڑی ہی گزر سکتی تھی، یہ ہمارے پولیس حکام کا نادر آئیڈیا تھا کہ یہ وائرس اتنے تنگ راستے سے گزرنے کی کوشش میں ضرور پھنس جائے گا اور پولیس اسے ہتھکڑیاں لگالے گی۔

شومئی قسمت کہ فروری میں پاکستان پہنچنے والا کورونا وائرس اب تک قابو میں نہیں آسکا اور آج ہماری حکومت اور عوام کی بھرپور کوششوں کے بعد ہم نے ایک لاکھ کا ہندسہ عبور کرکے دنیا کے کئی ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور پاکستان میں محض 6 لاکھ ٹیسٹ میں ایک لاکھ کیسز سامنے آنا ہماری حکومت اور عوام کا مشترکہ کارنامہ ہے۔

کورونا کی بڑھتی ہوئی رفتار کو دیکھتے ہوئے ہم نے کورونا سے معاہدے کرلیا ہے کہ پانچ دن پیر تا جمعہ ہم بازاروں میں بھی گھومیں گے، بسوں میں جڑ کر سفر بھی کریں گے اور کوئی احتیاطی تدبیر اختیار نہیں کرینگے لیکن کورونا ان پانچ دنوں میں کسی کو نہیں “کاٹے ” گا۔

ہفتہ اور اتوار کو کورونا ویک اینڈ اپنی مرضی سے مناسکتا ہے اس دوران عوام اپنے گھروں تک محدود اور بازار بند رہیں گے اور ان پانچ دنوں میں احترام نہ کرنے والے کو کورونا اپنی مرضی سے ” کاٹ” بھی نہیں سکتا۔ اس لئے عوام پیر تا جمعہ تک آزاد ہیں کیونکہ آج پیر سے جمعہ تک کورونا کی چھٹی ہے۔

Related Posts