آرمی چیف کا دورہ کابل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عالمی اور علاقائی سطح پر افغانستان میں امن عمل کو بچانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ پیر کے روز آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے غیر اعلانیہ دورہ کابل کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ جنرل باجوہ نے صدر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ افغانستان کے دوسرے طاقت ور عہدے دار عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔

جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے، انٹرا افغان امن کوششیں اس بحث کا محور تھیں، افغان قیادت نے اس سلسلے میں پاکستان کے تعمیری کردارکی تعریف کی،آرمی چیف کا یہ دورہ ہفتے کے روز افغانستان میں ہونے والی ایک خونریز کارروائی کے بعد عمل آیا۔ جس میں بچیوں کے ایک اسکول کو نشانہ بنایا گیا تھا، شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے زیر اثر دشت برجی کے علاقے میں دہشت گردوں نے اسکول کو نشانہ بناتے ہوئے تقریباً 70کے قریب قیمتی زندگیوں کے چراغ بجھا دیئے، جن میں زیادہ تر اسکول کی طالبات شامل تھیں۔

افغان صدر نے اس ہونے والے ظلم کا الزام افغان طالبان پر عائد کیا، لیکن طالبان نے مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، ایسے وقت میں جب غیر ملکی فوجیوں نے افغانستان سے انخلاء کا آغاز کردیا ہے، اور امن عمل ایک نازک مرحلے میں ہے تو، اس طرح کے حملوں نے آنے والے نتائج کے حوالے سے بہت سے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔

ادھر، عید کے تہوار کے موقع پر طالبان نے جمعرات سے شروع ہونے والی تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ اور توقع کی جارہی ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت بھی پچھلے سال کی طرح اس بار بھی مذکورہ واقعات کا بدلے گی، مگر پر تشدد کارروائیوں سے متاثرہ افغان شہری عید کے تین دن نسبتاً سکون کے ساتھ گزاریں گے۔

مغربی حمایت یافتہ حکومت اور طالبان گروہوں کے مابین تنازعات کو حل کرانے کی کوششوں میں پاکستان کلیدی کردار ادا کررہا ہے، دوسری جانب پاکستانی فوج افغانستان میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے، کیونکہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان اور پورے خطے میں امن ہے۔

اس حوالے سے قانونی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا افغانستان کے معاملے میں ہماری منتخب حکومت دلچسپی نہیں لے رہی ہے، یا اسے اس سے دور رہنے کاکہا جارہا ہے، حتیٰ کے سابقہ ملاقاتوں میں بھی زلمے خلیل زاد اور دیگر سینئر غیر ملکی حکمران ہماری فوجی قیادت ملنے میں زیادہ دلچسپی لیتے رہے ہیں۔

چنانچہ 11 ستمبر کو امریکی افواج کی واپسی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ کر دے گی، لیکن جنگ زدہ افغانستان میں امن کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام افغان اسٹیک ہولڈرز غریب افغان شہریوں کے مفاد میں کام کریں جو قدیم زمانے سے ہی عملی طور پر امن کے خواہاں ہیں۔