سپریم کورٹ کے تعمیرات گرانے کے احکامات، متاثرین کہاں جائیں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

economictimes operation in karachi

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں دوران سماعت شہر بھر میں ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات گرانے کا حکم صادر کیا ہے تاہم حکومت کی جانب سے درخواست کے بعد تعمیرات ختم کرنے کے حوالے سے کچھ دن کی مہلت دیدی ہے۔ روشنیوں کا شہر کراچی کوئی ایک دن یا ایک لمحے میں اس حال کو نہیں پہنچا، کراچی کی تباہی میں ہر ادارے نے اپنا اپنا حصہ ڈالا تب جاکر روشنیوں کو شہر غیر قانونی تعمیرات کا جنگل بنا۔ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات یقیناً ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن بغیر سوچے سمجھے اور ذمہ دارا ن کا تعین کئے بغیر توڑ پھوڑ کے احکامات صادر کرتے وقت یہ بھی سوچیں کہ متاثرین کہاں جائیں گے ۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سندھ میں تمام سرکاری اراضی واگزار کرانے کا حکم دیتے ہوئے 3ماہ کے اندر زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرانے کی بھی ہدایت ہے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آدھا کراچی سروے نمبر پر چل رہا ہے، سرکاری زمینوں پر قبضے بادشاہوں کی طرح ہو رہے ہیں، یونیورسٹی روڈ پر جائیں اور دیکھ لیں کتنی عمارتیں بنی ہیں، نمائشی اقدام کے لیے دیوار گراتے ہیں پھر اگلے دن تعمیر ہو جاتی ہے،کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی، شہر تباہ کردیا گیا۔

کراچی کی تاریخ 
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے،کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا،1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں جس کی وجہ سے کراچی کو چھوٹا پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔

کراچی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے 80 ء اور 90 ء کی دہائیوں میں لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے ليے پاک فوج کو بھی کراچی میں مداخلت کرنی پڑی۔ اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ کراچی کی امن عامہ کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے اور شہر میں مختلف شعبوں میں ترقی کی رفتار میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

شہر کی تباہی
کراچی شہر کا المیہ یہ ہے کہ پورے ملک کی معاشی شہ رگ ہونے کے باوجود کسی بھی حکومت نے اس شہر کی بربادی روکنے کی کوشش نہیں کی، کراچی میں کوئی ایک اتھارٹی نہیں ہے بلکہ پولیس، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے ایم سی ،ایم ڈی اے ، کنٹونمنٹ بورڈز اورریونیو ڈیپارٹمنٹ نے ملکر کراچی کو تباہ کیا ہے۔

انگریز نے مستقبل کو مدنظر رکھ کر کراچی میں زلزلے کے مرکز کو دیکھتے ہوئے بلند و بالا عمارتیں بنانے سے گریز کیا لیکن آج کراچی عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے، فضائی آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سانس لینا محال ہوچکا ہے۔

کراچی میں محکمہ پولیس، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے ایم سی ،ایم ڈی اے ، کنٹونمنٹ بورڈز اورریونیو ڈیپارٹمنٹ کی منشاء کے بغیر کوئی شہری ایک اینٹ نہیں لگاسکتا تو آج شہر میں جگہ جگہ تعمیرات کیسے بن گئیں پہلے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔

غیر قانونی تعمیرات کے ذمہ دار
سپریم کورٹ نے بجافرمایا کہ کراچی کو سازش کے تحت تباہ کیا گیا لیکن یہ سازش غریب عوام نے نہیں کی بلکہ امراء اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر غریب کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لیکر رشوت کے عوض کام کرنے والے بابوؤں نے کراچی کی تباہ کا نوحہ لکھا ہے۔

کراچی میں برسوں سے تعمیرات جاری ہیں، قبضہ مافیا نے برساتی نالوں کیساتھ ساتھ ندیوں میں بھی پلاٹنگ کی، آج کراچی کا کوئی علاقہ غیر قانونی تعمیرات سے پاک نہیں ہے، 40،60 اور 80 گز کے رہائشی پلاٹوں پر بھی غیر قانونی تعمیرات بن چکی ہیں ۔

ذمہ داروں کا تعین
سپریم کورٹ کا غیر قانونی تعمیرات کیخلاف حکم بالکل قانون کے مطابق ہے لیکن سپریم کورٹ ان گھروں میں رہنے والوں سے سائبان چھیننے کے بجائے ذمہ داران کا تعین کرے۔اس کیلئے کوئی کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، میرے خیال سے پہلے علاقے کا تعین کیا جائے کہ مذکورہ علاقہ کے ایم سی، کے ڈی اے یا کس ادارے کی حد میں آتا ہے اور اس کے بعد متعلقہ عمارت بنانے کا وقت دیکھیں کہ کن کن افسران کے دور میں یہ تعمیرات بنیں اور کس بلڈر نے بنائیں ۔اس حساب سے ان سے جواب طلب کریں تو شائد اصل ذمہ داران کا تعین ہوسکتا ہے۔

شہریوں کا جرم
سرکاری املاک پر قبضہ جرم ہے جس کی سزاء موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک غریب آدمی کیسے سرکاری اراضی پر قبضہ کرسکتا ہے تو اس کا جواب سیدھا سا ہے کہ بااثر شخصیات اور ان کے نمائندے زمینوں پر قبضے کرکے ان پر تعمیرات بناکرغریب لوگوں کو بیچ دیتے ہیں اور اپنے گھر کا خواب دیکھنے والے غریب شہری اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی ان کے حوالے کردیتے ہیں۔

متاثرین کہاں جائیں 
چیف جسٹس صاحب! عرض یہ ہے کہ جب بنی گالا اور ملک میں دیگر تعمیرات کو ریگولرائز کیا جاسکتا ہے تو نسلہ ٹاور یا دیگر رہائشی عمارتوں و مکانات اور دکانوں کو لیز دینے میں کیا مشکل ہے کیونکہ قانون تو پورے ملک میں ایک ہے ہاں نالوں پر قائم تعمیرات گرانا ضروری ہے تو پہلے متاثرین کو متبادل رہائش فراہم کی جائے۔

جناب چیف جسٹس صاحب!قانون کی حکمرانی برقرار رکھنا آپ کا فرض ہے اور آپ اپنا فرض ضرور نبھایئے لیکن کراچی میں تعمیرات کو گرانے کے بجائے قانون کے مطابق مستقل کردیا جائے تاکہ بے سائبان شہریوں کو سائبان مل سکے اور اس سے عدالت یا کسی ادارے کا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ ہزاروں شہریوں کے بے گھر ہونے سے پیدا ہونے والے انسانی المیہ سے بھی بچاجاسکے گا اور ٹیکس کی مد میں خزانے کو بھی فائدہ ہوگا۔

Related Posts