اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی من مانی کے باعث طویل جدوجہد کے نتیجے میں طے پاجانے والی جنگ بندی تاخیر کا شکار ہوگئی۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے معاہدے پر عمل درآمد کو یرغمالیوں کی فہرست سے مشروط کردیا ہے، نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ رہا ہونے والے یرغمالیوں کی فہرست ملنے تک جنگ بندی کا باقاعدہ آغاز نہیں کریں گے۔
دوسری جانب حماس کا کہنا ہے تکنیکی وجوہات کی بنا پر فہرست دینے میں تاخیر ہورہی ہے۔ اسرائیلی فوج کا بھی کہنا ہے کہ حماس معاہدے کی پاسداری نہیں کررہی، اگر ایسا ہی چلتا رہا تو بمباری بند نہیں کریں گے۔ معاہدے کے مطابق یرغمالیوں کا تبادلہ شام چار بجے کے بعد شروع ہونا ہے۔
معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے کے پہلے روز حماس اسرائیلی جیلوں میں قید 95 فلسطینیوں کے بدلے تین خواتین یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔ پہلے چھ ہفتوں میں اسرائیلی فوجیوں کو آبادی سے دور بفر زون میں واپس جانا ہوگا، اسرائیل غزہ پر اپنی ناکہ بندی میں نرمی کرے گا اور امدادی سامان لے جانے والے چھ سو ٹرکوں کو جانے کی اجازت ہوگی۔
صحرا است کہ دریا است۔۔۔۔ پانیوں پر بالادستی کی جنگ میں پاک نیوی نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا
غزہ میں جنگ بندی معاہدہ آج سے نافذ العمل ہوگا، اسی ضمن میں رفح سے اسرائیلی فوج کا انخلا جاری ہے معاہدے پر عملدرآمد مقامی وقت کے مقابق صبح آٹھ بجے ہوگا جبکہ پاکستان کے وقت کے مطابق شام چار بجے شروع ہوگا۔ معاہدے کے تحت دونوں طراف سے قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔
معاہدے کے تحت اسرائیل یرغمالیوں کے بدلے دو ہزار فلسطینی قیدی رہا کئے جائیں گے۔ اسرائیل کی وزارت انصاف نے فلسطینی قیدیوں کی تفصیلات جاری کردی ہیں اور کہا ہے کہ آج سے یرغمال بننے والی ہر اسرائیلی خاتون کے بدلے تیس فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
رہائی پانے والوں میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے رہنما احمد سعادت بھی شامل ہیں، جن پر اسرائیلی وزیر سیاحت ریحام زیوی کو قتل کرنے کا حکم دینے کا الزام ہے۔ احمد سعادت کو اسرائیلی فوجی عدالت نے 30 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔
فلسطینی کمیشن برائے اسیران کے مطابق اس وقت دس ہزار چار سو فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن میں گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران گرفتار کیے گئے قیدی شامل نہیں۔