خوش رہئے عمران خان صاحب!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اقوامِ متحدہ  کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس نے حالیہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کے دورے نے بھارتی راہداریوں میں چند ایک افراد کو تو ضرور پریشان کردیا اور کچھ لوگوں نے ان کی تقریر کو کسی حد تک جانبدارانہ بھی قرار دیا، تاہم اسے پاکستان کیلئے ایک فتح قرار دینا قبل از وقت ہوگا، تاہم اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے کوئی شکست بھی قرار نہیں دیاجاسکتا۔

جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس اسلام آباد میں  ترک صدر رجب طیب اردوان کے دورۂ پاکستان کے بعد آئے۔ بے شک یہ رہنما مختلف نظریات اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی ترجیحات بھی مختلف ہیں تاہم جو نکتہ ان کے دورۂ پاکستان کو آپس میں ملاتا ہے وہ مسئلۂ کشمیر پر ان کا واضح مؤقف ہے۔

دونوں رہنماؤں نے پاکستان کا دورہ اُس وقت کیا جب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مختلف ذرائع سے خطرات کے نشانے پر تھی۔ اس کی وجہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے شہریوں کی توقعات پر پورا نہ اترنا ہوسکتا ہے۔

تحریکِ انصاف  حکومت وزیر اعظم کی سربراہی میں چاروں طرف سے آگ میں جھلس رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں مسلط کردہ سوشل میڈیا کا ضابطہ صارفین کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ انہوں نے اس نئی حکومتی ہدایت کو حکومت کی پہنچ سے بالاتر قرار دیا ہے۔

لوگوں میں اس حوالے سے خوف موجود ہے کہ انتظامیہ نے نیا قانون اس لیے متعارف کروایا تاکہ وہ اپنا گھٹیا کام خاموشی سے کرسکیں۔ وہ قومی سلامتی و ہم آہنگی برقرار رکھنے کی چھتر چھایا تلے اپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ کچھ سیکورٹی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ بہترین آپشن ہوسکتا ہے تاہم کچھ دیگر افراد کی رائے یہ ہے کہ یہ اقدام لاپتہ افراد کی فہرست میں بے بہا اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

شاید، وزیر اعظم عمران خان اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان سے بہت سے اقدامات سیکھ رہے ہیں۔ ترک صدر کا دو روزہ طویل دورۂ پاکستان بھارتی حکومت کے لیے یقیناً گلے کی ہڈی بن گیا ہوگا جبکہ طیب اردوان نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ان کے اقدامات پر انہیں خوب سنائی تھیں جبکہ وادئ کشمیر  میں سات ماہ سے کرفیو نافذ ہے۔

معمول کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے زورِ خطابت کا استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو تقریباً ہر نقصان دہ شے کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا جو پاکستان میں واقع ہو رہی ہے، جبکہ عمران خان کا اندازِ گفتگو ہی انہیں عوام میں مقبول ترین شخصیت بنائے ہوئے ہے اور یہی اندازِ گفتگو ان کی ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو سہارا دینے کا باعث ہے۔

میرا یقین یہ کہتا ہے کہ مکمل طور پر غلط نظام نہیں چل سکتا، نہ ہی مکمل نااہلی جاری رہ سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی انتظامیہ نے شاید اقتصادی نشوونما کو تباہ کردیا ہو اور شاید تجارتی سرگرمیوں میں بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی ہوں، تاہم انہوں نے عالمی سیاست کے منظرنامے کے ہر میدان میں اپنی سیاسی قابلیت ثابت کردی ہے۔

بڑے ممالک میں پاکستان کی مثال سنجیدہ منش افراد میں شرارتی بچے کی سی رہی جبکہ گزشتہ حکومتوں کے دوران  شاید ایک فرسودہ طریقہ کار اپنایا گیا،  تاہم اس بار وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے سفارت کاری کے محاذ پر اپنی حکمتِ عملی بدل دی ہے۔

اِس مرتبہ پاکستان نے اپنی بڑی بڑی بندوقیں نکال لی ہیں۔ دونوں قائدین نے بھارت پر تنقید کی اور دونوں نے بھارت کی جارحانہ پالیسی کے برعکس پاکستان کی معقول حکمتِ عملی کو سراہا جس کے تحت پاکستان نے فوجی تنازعے سے بچاؤ کا راستہ اختیار کیا۔

رہنماؤں نے افغان پناہ گزینوں کیلئے پاکستان کی مہمان نوازی اور خطے میں قیامِ امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کاوشوں کی تعریف کی۔ تاہم، افغان حکومت نے حسبِ معمول بھارت نواز پالیسی اپناتے ہوئے کھانا کھلانے والے ہاتھ کو ہی کاٹ لیا جو افغان پناہ گزینوں کو ایک طویل عرصے سے کھلا رہا ہے۔ شاید، سفارت کاری کے محاذ پر عالمی برادری میں پاکستان کے تصور کیلئے یہ تنوّع مفید ثابت ہوگا۔

عمران خان کی سفارتی حکمتِ عملی نے پاکستان کا ایک گراں قدر تصور پیدا کیا جس کے تحت 2020ء میں بیرونِ ملک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد 25 ہزار متوقع ہے جو گزشتہ دس برسوں سے 20 ہزار سے بھی کم رہی۔

حالیہ دنوں میں برطانیہ وفد نے بھی وزیر اعظم عمران خان کے مقاصد میں مدد کی جس سے پاکستان کا ایک ہم آہنگی سے بھرپور تاثر عالمی برادری میں ابھر کر سامنے آیا جس سے سیاحوں کو واپس پاکستان آنے میں مدد ملے گی۔

شاید، ملازمتیں دینے کے متعدد راستوں میں سے یہ ایک ایسا راستہ ہو جو 2023ء میں مدتِ وزارتِ عظمیٰ ختم ہونے سے قبل عمران خان کے 50 ہزار نوکریاں دینے کے وعدے میں انہیں ثابت قدم رہنے میں مدد کرے۔

سابقہ حکمرانوں کے مقابلے میں وزیر اعظم عمران خان کی حکمتِ عملی معاشی و سیاسی میدان میں چاہے تباہ کن رہی ہو، تاہم خارجہ تعلقات اور بین الاقوامی سیاست کے منظر نامے پر اگر ان کے اقدامات کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں یہ محسوس ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان وہ تبدیلی لانے میں کامیاب رہے، جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔