بلوچ طلباء کا احتجاجی مظاہرہ، حفیظ بلوچ کو رہا کیا جائے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: بلوچستان کی تعلیمی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے اور بعدازاں جبری گمشدگی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔

بلوچ طلباء نے ایم ایم نیوز سے گفتگو میں کہا کہ بلوچ طلباء بلوچستان سے باہر اسلام آباد اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بھی ہراسمنٹ اور جبری گمشدگی کا سامنا کررہے ہیں، حفیظ بلوچ جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالب علم ہیں، انہیں 8 فروری 2022 کو خضدار کی ایک نجی اکیڈمی سے جبری گمشدہ کیا گیا تھا جس کے بعد اسلام آباد و پنجاب سمیت ملک کے دوسرے حصوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس کے ساتھ ساتھ بلوچ طلباء نے ہر قانونی دروازہ کھٹکھٹا کر مقتدر اعلیٰ کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 1 مارچ 2022 کو پریس کلب اسلام آباد کے سامنے حفیظ بلوچ کی بحفاظت رہائی اور بلوچ طلباء کے ساتھ ہونیوالی ہراسمنٹ کو روکنے کیلئے ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگائی گئی لیکن افسوس ہمیں ہر طرح سے ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔

قائد اعظم یونیورسٹی انتظامیہ کا غیر سنجیدہ رویہ، اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے بلوچ طلباء پر وحشیانہ تشدد، بغاوت کے پرچے، سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے وقتًا فوقتاً پروفائلنگ، دھمکیاں اور مختلف طریقوں سے ہراسانی بلوچ طلباء کو تشدد پہ اکسانے کیلئے ماحول مہیا کر رہے ہیں، جو کہ انتہائی تشویشناک اور قابل مذمت ہے۔

طلباء کا کہنا تھا کہ آج اس احتجاجی کیمپ کا 26 واں دن ہے جو کہ شہر اقتدار کے بالکل بیچوں بیچ لگا ہوا ہے لیکن یہاں بھی ہمیں نا امیدی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔

اس دوران ہمارے مسئلے کو سمجھنے کے بجائے مختلف لوگوں نے سول ڈریس میں آکر مختلف طریقوں سے ہمیں ہراساں کرنے کا سلسلہ مزید تیز کردیا ہے جس کی مثال حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔

گزشتہ دنوں قائد اعظم یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل نمبر 6 میں 3 افراد رات گئے بلوچ طلبہ کے کمروں میں بغیر اجازت گھستے ہیں، اُن سے مختلف سوالات پوچھتے ہیں۔

دوسری جانب بلوچ طلباء کے بارے میں غیر قانونی و غیر آئینی طریقے سے معلومات اکٹھا کر کے طلباء کو ہراساں کرتے ہیں۔

بلوچ طلباء کا کہنا تھا کہ کل ہمارے ایک اور بلوچ طالبعلم کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر ایک سیاہ رنگ کی گاڑی میں سوار چند افراد نے پیچھا کرتے ہوئے روکا اور  مسلح تنظیموں کا تذکرہ کر کے ایسے سوالات پوچھے گئے کہ جن سوالات کا ایک طالبعلم سے کوئی تعلق نہیں اور اس کو ڈرانے کی بھی کوشش کی گئی۔

اس سے ثابت ہو رہا کے ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے جس سے بلوچ طلباء مزید ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی بھی خطرے میں ہے۔

8 فروری سے ہم پرامن احتجاجی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ حفیظ بلوچ کی باحفاظت رہائی ممکن ہوتی اور بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ کا خاتمہ ہوتا، اس میں مزید تیزی آرہی ہے اور مقتدر اعلیٰ کی جانب سے اس مسئلے پر غیر سنجیدہ رویہ اپنا کر ہمارے مطالبات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

اب جبکہ بلوچ طلباء تشویشناک حد تک عدم تحفظ کا شکار ہورہے ہیں تو ہم بحیثیت مظلوم طلباء یہ بات سب کو گوش گزار کرانا چاہتے ہیں کہ اس دوران بلوچ طلباء کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے ذمہ دار اسلام آباد انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں سمیت پنجاب اور اسلام آباد کے یونیورسٹیز ہونگی جہاں پر بلوچ طلباء زیرتعلیم ہیں۔

طلباء کا کہنا تھا کہ ہمارے اب بھی وہی دو مطالبات ہیں کہ حفیظ بلوچ کو باحفاظت رہا کیا جائے اور اسلام آباد اور پنجاب میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی پروفائلنگ، انہیں دھمکیاں دینا اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے عدم تحفظ کا شکار بنانا بند کیا جائے۔

ہمارا یہ احتجاجی سلسلہ ہمارے مطالبات پر عمل درآمد کروانے تک مختلف طریقے اپناتے ہوئے جاری رہے گا اور بہت جلد ساتھیوں کے مشورے سے آگے کا لائحہ عمل بتایا جائے گا۔ ہم آج کی پریس کانفرنس کے توسط سے اپنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

مزید برآں ہم تمام کارکنان اور صحافی حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آگے بھی اپنا فرض نبھاتے ہوئے بلوچ طلباء کے مطالبات منوانے تک ہمارا ساتھ دیں اور ہمارا حوصلہ بنیں۔