غزہ کا کھنڈرات کا ڈھیر بنانے کے باوجود بھی اسرائیل کے دل کو ٹھنڈک نہ پہنچ سکی اور غزہ میں 41 ہزار600فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد اب اسرائیل نے رخ کیا ہے لبنان کا، جہاں پچھلے ایک ہفتے سے بم اور بارود کی برسات کا سلسلہ جاری ہے لیکن گزشتہ رات اسرائیل کی طرف سے تمام حدیں عبور کرلی گئیں۔
اسرائیل نے 2000 کلوگرام کا بنکر بسٹر بم لبنانی دارالحکومت بیروت کے رہائشی علاقوں میں برسائے گئے جن سے کئی بلڈنگز مسمار ہوئیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق سیکڑوں افراد شہید ہوئے اور کئی اب تک اس ملبے میں دبے ہوئے ہیں جہاں ایمبولینس تک کا جانا دشوار ہورہا ہے۔
اب تو یہ بات عیاں ہوتی جارہی ہے کہ لبنان میں سلگتی ہوئی چنگاری ایک بھڑکتا شعلہ بن ابھر پڑی ہے اور اس کے بعد یہ آگ کے بھڑکتے شعلے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے دہانے پر کھڑے ہیں۔اسرائیلی آرمی چیف نے بات واضح کردی ہے کہ جب تک صیہونی حکومت کے اہداف پورے نہیں ہوتے ،وہ لبنان پر اپنے حملے جاری و ساری رکھیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی واضح طور پر کہا کہ لبنان میں ہمارے اہداف کو حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ حسن نصر اللہ کو نیست و ونابود کردیا جائے۔ کل کی بمباری کے متعلق اطلاعات یہ ہیں کہ حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر اور حسن نصر اللہ کو نشانہ بنانے کے چکر میں ایک گنجان آبادی پر حملہ کیا گیا اور اب اسرائیلی میڈیا یہ دعویٰ کررہا ہے کہ حزب اللہ کے لیڈر کی بیٹی اور دو بہت کلیدی لیڈران بھی حملے میں شہیدہوچکے ہیں۔
پچھلے کئی گھنٹوں سے حزب اللہ کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہ آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حزب اللہ کے جنگجوؤں اور ان کے دفاتر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
دوسری جانب ایرانی سپریم لیڈ ر نے ایرانی سکیورٹی کونسل کی میٹنگ بلا لی ہے جس میں کلیدی فیصلوں کا امکان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایران کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حزب اللہ کے رہنما کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو وہاں کی قیادت کا تسلسل جاری رہے گا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کو بھی احتمال ہے کہ حزب اللہ کے کچھ کلیدی رہنما شہید ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ ایران کی ایکسیس آف رززٹنس (Excess of Resistance) کا سلسلہ یمن کے حوثیوں ، عراق کے لڑاکا جنگجوؤں، حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ خلیج کے کئی ایسے ممالک میں پراکسی سیل موجود ہیں، جنہیں اگر ایران نے فعال کیا تو خطے میں بھونچال آسکتا ہے۔
دوسری جانب نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوا اور پھر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے کل نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے باہر بیان دیا اور گزشتہ شب لبنان پر اسرائیلی حملے کو بہت ہی خطرناک موڑ قرار دیا۔ نہیں لگتا کہ یو این سکیورٹی کونسل کی زیر غور قرارداد جس میں 21روز کی جنگ بندی کا مطالبہ ہے، ایسی صورت میں اور امریکا کے دو رُخے رویے کے سبب یہ قرارداد بھی پاس ہوتی نظر نہیں آتی جس میں امریکا ایک طرف تو ایسٹ کی بات کرتا ہے اور دوسری جانب تقریباً 20 ہزار ٹن بم اور بارود اسرائیل کو بھیج چکا ہے اور یہ سپلائی مسلسل جاری ہے:
کس قدر رُوپ ہیں یاروں کے کہ خوف آتا ہے
سرِ میخانہ جدا اور سرِ سرکار جدا
اسرائیل کی جانب سے یہ بیان دیا گیا کہ لبنان کو پتھروں کےدور میں دھکیلنے میں بھی ہمیں کوئی عار نہیں۔ اور اب حملوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو نہ 1982 میں دیکھنے میں آیا اور نہ ہی 2006 کی لبنان اور اسرائیل جنگ میں دیکھنے میں آیا جو اب تک شہادتیں ہورہی ہیں، ان کی تعداد 2006 اور 1982 کی جنگوں سے کہیں زیادہ ہوتی نظر آتی ہے۔
اسرائیلی آرمی چیف نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کے پاس ایسی جنگی ٹیکنالوجیز ہیں جن کا کہ لبنان پر استعمال باقی ہے۔واضح رہے کہ چند دن قبل لبنان میں اسرائیل پیجر اور واکی ٹاکی جیسی ڈیوائسز میں دھماکے کراکر کافی جانی و مالی نقصان کرچکا ہے۔ گزشتہ شب ایک سمت تو بارود کی برسات بیروت پر جاری تھی تو دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو واضح کرچکے تھے کہ اصل دشمن ایران ہے اور جب تک ایران کی جوہری صلاحیت کو نیست و نابود نہ کیا جائے، اس وقت تک ایران کا قہر جاری رہے گا اور آرک آف کرس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایران، عراق اور شام کو شامل کیا ہے ۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ہم آرک آف بلیسنگ میں سعودی عرب، بھارت اور دیگر ممالک کو ملاتے ہوئے یورپ تک ریلوے اور باقی مواصلاتی نظام بچھا کر ترقی کی نئی راہوں کا آغاز کریں گے۔ ایران کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کیلئے ہمارے پاس کافی طاقت ہے اور ہمیں دنیا کی حمایت بھی درکار ہے۔
اور اب غزہ کے تسلسل میں لبنان پر جاری اسرائیلی حملوں کے دوران خطے کی جغرافیائی و سیاسی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس کا ہم سب کو علم ہے کہ ایران کی جوہری افزودگی کا سلسلہ اسرائیل کی آنکھوں میں عرصہ دراز سے کھٹک رہا ہے۔ اور اسرائیل پہلے ہی منصوبہ بندی کرچکا تھا کہ ایران پر حملہ کرکے ان کی تنصیبات کو تباہ و برباد کیا جائے۔
اور اب محسوس یہی ہوتا ہے کہ جنگ کو آگے پھیلانے کی اسرائیلی خواہش پوری ہوتی نظر آرہی ہے، جس کے بعد اس کی آخری حد ایران کا ہدف ہوگا جو کہ اسرائیل کی طرف سے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
دوسری طرف ایران کے پاس حزب اللہ کا ساتھ دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اگر حزب اللہ پر اسرائیل کے حملے اسی طرح جاری رہے تو ایران کو مجبوراًاس جنگ میں کودنا پڑے گا اور یہی اسرائیل چاہتا ہے کہ ایران جنگ میں کود جائے۔ ایران اگر ایسا کرتا ہے تو امریکا بھی جنگ میں اسرائیل کی مدد کرنے کیلئے آگے آئے گا، چونکہ امریکا پہلے کہہ چکا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ خطے میں جنگ کو فروغ دیا جائے، لیکن اگر اسرائیل پر حملہ ہوا تو وہ خاموش نہیں رہیں گے اور اسرائیل کا ساتھ دیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسرائیل امریکا کی مدد کے پیشِ نظر ایران پر حملہ کرسکتا ہے اور اسی لیے تمام بحری بیڑے اور تمام امریکی سازوسامان اسی خطے میں تعینات کردئیے گئے ہیں۔ یہاں یہ بھی ملاحظہ کرنا ضروری ہے کہ روس کی دلچسپی یہی ہے کہ امریکا مڈل ایسٹ میں مصروف رہے تاکہ روس یوکرین میں اپنا فوجی آپریشن مکمل کرسکے اور یوکرین سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی توجہ ہٹائی جاسکے جبکہ رو س کا بہت خاموشی کے ساتھ ساتھ دینے والا ملک چین ہے۔
چین ہمیشہ خاموشی کے ساتھ اپنی سفارتی کاوشوں پر انحصار کرتا ہے، لیکن وہ نہیں چاہے گا کہ مڈل ایسٹ کےممالک کا اعتماد چین سے کم ہونا شروع ہوجائے اور جو ایک روایت چلی تھی کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک چین کی طرف معیشت کے لحاظ سے راغب ہورہے تھے جو آگے جا کر باقی تمام معاملات میں تعاون کرنےپر رضامند ہوسکتے تھے، جس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ امریکا کی چائنہ کنٹینمنٹ پالیسی کو ضرب لگے گی۔ ایسی صورت میں یہی ممالک جو چین کی جانب راغب ہوتے جارہے تھے، وہ واپس امریکا کی طرف اس کی طاقت کو دیکھتےہوئے راغب ہونا شروع ہوجائیں گے۔
آخر میں یہ بات غور طلب ہے کہ اس جنگ کےبھڑکنے میں خطے، خاص طور پر وہ ممالک جن کی معیشت بہت مخدوش ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ان کا ایسا نقصان ہوسکتا ہے جو برداشت کرنا یہاں کے لوگوں کیلئے بہت ہی کٹھن مرحلہ ہوگا اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ خطے کے ممالک خاص طور پر ہمارے وطنِ عزیز کے سربراہان اس منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے عوام کے مفاد میں اپنی منصوبہ بندی کریں گے تاکہ آنے والے وقتوں میں عوام کا نقصان کم سے کم ہو۔