دوحہ سمٹ میں عالم اسلام و عالم عرب کے جلیل القدر بادشاہوں اور منتخب حکمرانوں کی دھواں دھار تقریروں کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اسرائیلی فوج نے آج منگل کو غزہ شہر پر مکمل قبضے کیلئے شدید فضائی اور زمینی حملے تیز کرتے ہوئے درجنوں عمارتیں اور رہائشی مراکز تباہ کر دیے، جس کے نتیجے میں صرف آج کے دن کم از کم 68 فلسطینی شہید ہوئے۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس کی دو فوجی ڈویژنز غزہ شہر میں داخل ہوچکی ہیں جبکہ تیسری بھی جلد شریک ہوگی۔ اسرائیلی آرمی چیف ایال زامیر نے دعویٰ کیا کہ کارروائی کا مقصد “شہر کے قلب” تک پہنچنا ہے، جسے وہ مزاحمت کے لیے مرکزی خطہ قرار دیتا ہے۔
شہری عمارتوں کی تباہی کے نتیجے میں درجنوں خاندان بے گھر ہوگئے ہیں۔ مغربی غزہ کے تل الہوا علاقے میں ایک بمباری میں 4 فلسطینی جاں بحق ہوئے، جبکہ السودانیہ، حي النصر اور مخيم الشاطئ میں بھی متعدد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنا دی گئیں۔ صرف حالیہ ہفتوں میں غزہ شہر میں 3600 سے زائد عمارتیں اور 13 ہزار سے زیادہ خیمے تباہ ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے جاری حملوں کے باوجود ہزاروں فلسطینی اپنے شہر میں رہنے پر مجبور ہیں، کیونکہ جنوبی علاقے شدید محرومی اور بنیادی سہولتوں کی کمی کا شکار ہیں۔ رفح اور خان یونس کے المواصي علاقے میں تقریباً 8 لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے انسانی تباہی کو ناقابلِ تصور سطح تک پہنچا دیں گے اور اسے “سانحہ” قرار دیا ہے۔ انہوں نے تمام ممالک سے فوری اقدام کی اپیل کی ہے تاکہ مجاز عالمی قوانین کے مطابق اسرائیل کو روکا جا سکے۔
اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی بمباری اور محاصرے کے نتیجے میں 64 ہزار 964 فلسطینی شہید اور 165 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ محاصرے اور قحط کے باعث مزید 428 فلسطینی جاں بحق ہوئے جن میں 146 بچے شامل ہیں۔
یہ تمام کارروائیاں امریکا کی کھلی حمایت کے سائے میں جاری ہیں، جبکہ عالمی برادری تاحال اس قتلِ عام کو روکنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔
اسرائیل نے منگل کو اعلان کیا کہ اس کی دو فوجی ڈویژنز نے غزہ سٹی میں داخل ہو کر آپریشن شروع کر دیا ہے، اور ایک تیسری ڈویژن بھی جلد شامل ہو گی۔ اسرائیلی فوج نے اسے “عربات جدعون” آپریشن کا نیا مرحلہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ مقصد حماس کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 14 اگست کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہری شہر چھوڑ کر جنوب کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں، جبکہ آبادی تقریباً دس لاکھ کے قریب ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر تورک نے اس کارروائی کو “ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا امن چاہتی ہے لیکن اسرائیل مسلسل قتلِ عام کر رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ عمل “جنگی جرائم اور جرائمِ انسانیت” کے زمرے میں آتا ہے اور یہ فیصلہ عدالت پر چھوڑا کہ آیا اسے نسل کشی کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن نے بھی اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات عائد کیے ہیں۔
یونیسف کی ترجمان نے کہا کہ یہ غیر انسانی ہے کہ لاکھوں بچوں کو زبردستی جنوب کی طرف دھکیلا جائے، کیونکہ وہاں کے کیمپ پہلے ہی غیر محفوظ، بھیڑ بھاڑ والے اور غیر موزوں ہیں۔ ان کے بقول، سات سو دن سے زیادہ عرصے سے مسلسل تشدد اور صدمات سہنے والے بچوں کو ایک “جہنم سے دوسرے جہنم” کی طرف بھیجنا ہے۔
یورپی یونین نے بھی اسرائیلی کارروائی کی توسیع پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اس سے مزید تباہی، ہلاکتیں اور بے دخلی ہو گی، نیز انسانی بحران بدتر ہو گا اور یرغمالیوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔ برسلز بدھ کو اسرائیل کے خلاف تجارتی پابندیوں اور سخت اقدامات کے نئے پیکیج پر غور کرے گا، جن میں دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء پر پابندیاں بھی شامل ہوں گی۔
جرمنی نے بھی اس آپریشن کی مذمت کی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ قدم “بالکل غلط سمت” ہے اور اسرائیل و حماس دونوں کو مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے تاکہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا راستہ نکلے۔
عالمی ادارے، یورپی یونین، جرمنی اور اقوام متحدہ سب اسرائیل کی تازہ جارحیت کو ناقابل قبول اور انسانی بحران کو بڑھانے والا قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ اسرائیل اسے حماس کو ختم کرنے کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے۔













گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں







