کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ممبران قانون اور ضابطے سے بالاتر ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کیا واقعی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یرغمال بنا یا گیا ہے؟
کیا واقعی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یرغمال بنا یا گیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:پاکستان میں اعلیٰ نظام تعلیم کے پُشتی بان ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)کے ممبران میں بعض ممبران پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں جب کہ بعض ممبران اپنی اپنی جامعات میں وائس چانسلر شپ کا دوسرا دور گزار رہے ہیں،تین سالہ پہلی مدت مکمل کرنے کے بعد دوسری بار بھی وائس چانسلر تعینات رہنے سے جہاں اہل و مستحق افسران کی حق تلفی ہوتی ہے وہیں پر کمیشن کے ممبر کی حیثیت بھی خلاف ضابطہ تعیناتی کو جاری رکھا جاتا ہے،ماہرین تعلیم کے مطابق اس ادارے میں سیاسی و سفارشی کلچر کا رحجان بالکل ختم ہونے سے ہی نظام تعلیم میں بہتر ی ممکن ہو گی۔

تفصیلات کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چلانے کیلئے کمیشن کی ویب سائٹ پر کل 21افراد کے نام شامل ہیں جن میں حالیہ دور حکومت میں ایک مذید عہدہ چیئرمین ٹاسک فورس کا تخلیق کرکے اسے بھی کمیشن کا ممبر بنایا گیا ہے، ایسے شخص کو ممبر بنایا گیا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ریٹائرڈ منٹ کے بعد سابقہ اداروں میں کسی نہ کسی عہدے پر تعینات رہ کر شفاف آڈٹ کی راہ میں رکاوٹ بن رہاہے، جب کہ حیران کن طور پر کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود اس لسٹ میں عہدے کے ساتھ ہی نام بھی درج ہے جس میں چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کا نام عہدے کے ساتھ موجود نہیں ہے۔

لسٹ کے مطابق ان ممبران میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر شائستہ سہیل، چیئرمین وزیر اعظم نیشنل ٹاسک فورس برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن، سیکرٹری وفاقی وزارت تعلیم اینڈ پروفیشنل ٹریننگ اسلام آباد، سیکرٹری وزارت منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن آرکائیو اینڈ لائبریریز ڈپارٹمنٹ لاہور پنجاب،سیکرٹری ہائر ایجوکیشن آرکائیو اینڈ لائبریریز ڈپارٹمنٹ خیبر پختون خوا، وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی شامل ہیں،ڈاکٹر سروش حشمت لودھی وزیر اعلیٰ سندھ کے کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے دوسری بار بھی این ای ڈی کے وائس چانسلر تعینات ہیں جس کی وجہ سے وہ کمیشن کے سندھ سے ممبر بھی ہیں۔

اس کے علاوہ سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شمس قاسم لاکھا،جی ایچ کیو راولپنڈی کے سابق جرنل سرجن لیفٹیننٹ جنرل (ر)آصف ممتاز سکھیرا، صدرزیبسٹ شاہناز وزیر علی،مہران انجینئرنگ یونیورسٹی جامشورو کے پروفیسر باوانی شنکر چوہدری،ورچوئل یونیورسٹی کے سابق ریکٹر ڈاکٹر نوید اے ملک،بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف کوئٹہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال اور جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر انجینئر احمد فاروق بازئی شامل ہیں، موخر الذکر دونوں ممبران پر مالی خرد برد اور جنسی ہراسگی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں جس کے باوجود انہیں کمیشن کا ممبر بنا کر ملک کی اعلیٰ تعلیم کے لئے انوکھی مثال قائم کی جارہی ہے۔

مذید ممبران میں لمز کے ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر فیصل باری، نسٹ کے سابق ریکٹرلیفٹیننٹ جنرل (ر)محمد اصغر،سابق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر محمداکرم شیخ،پنجوانی فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن نادرہ پنجوانی، لمز کے پروفیسر ڈاکٹر عارف نذیر بٹ اور سیکرٹری کالجز ہائر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ بلوچستان عبدالشکور کاکڑبھی شامل ہیں۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان میں بلوچستا ن کی نمائندگی کرنیوالے جن دو ممبران پر مالی خرد برد اور جنسی ہراسگی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے ان میں بلوچستان یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال اوربلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسنزکے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر فارق احمد بازئی شامل ہیں۔

دستاویزات کے مطابق سال 2019میں بلوچستان یونیورسٹی میں ویڈیو اسکینڈل منظرعام پر آیا تھا جس میں ایک خاتون طالبہ نے یونیورسٹی کی انتظامیہ کو دراخوست جمع کرائی تھی، جس میں نے طالبہ نے کہا تھا کہ سیکورٹی انچارج، ٹرانسپورٹ انچارج اور یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے انہیں جنسی عمل کے لئے بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اس درخواست کی پیروی کرتے ہوئے دیگر درجنوں طالبات نے بھی شکایتیں درج کروائیں۔

 

اس دوران یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل میں تعینات ملازم محمد ناصر بن محمد نسیم نے ہائی کورٹ بلوچستان سے رجوع کیا تھا،جس میں انہوں نے رجسٹرار طارق جوگیزئی، سینئر ٹرانسپورٹ آفیسر شریف شنواری،قائم مقام انچارج سیکورٹی کنٹرول روم سیف اللہ بن لال محمد سمیت یونیورسٹی آف بلوچستان کو فریق بناتے ہوئے آئینی درخواست 1170/2015داخل کی تھی، جس کے بعد توہین عدالت کی درخواست 48/2018دی تھی جس کے بعد عدالت کی جانب سے31جولائی 2019کو کیس کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ 26اگست 2019کو مکمل انکوائری کرکے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کے ذریعے رپورٹ جمع کرائیں۔

 

جس کے بعد ایف آئی اے کوئٹہ نے انکوائری نمبر 162/2019رجسٹرڈ کی، 2دسمبر 2019کو ایس ایچ او ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کوئٹہ سید عابد علی نے 14صفحات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی جس میں سفارشات دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال، رجسٹرار طارق جوگیزئی، ایم ٹی او شریف شنواری، چیف سیکورٹی آفیسر حاجی محمد نعیم اور انچارج کنٹرول روم سیف اللہ کے خلاف کارروائی کی جائے۔اس رپورٹ میں طالبات کی خفیہ کیمروں سے بنائی ویڈیوز کی موجودگی وائس چانسلر کے پاس ثابت ہوئی تھی جس کا اقرار ان کے فرنٹ مین سیف اللہ نے بھی کیا تھا۔

اسی طرح یونیورسٹی کی جانب سے ڈیپارٹمنٹل انکوائری کمیٹی قائم کی گئی،جس میں تمام ڈیٹا کو مد نظررکھتے ہوئے تحقیقات کی گئیں،جس کی رپورٹ 23جون 2020کو وائس چانسلرکو پیش کی گئی، جس میں وائس چانسلر کے سیکورٹی گارڈ اور انچارج سیکورٹی و کنٹرول روم سیف اللہ کی نوکری ختم، سابق چیف سیکورٹی آفیسر محمد نعیم پر معمولی جرمانہ عائد کرکے دو سال کے انکریمنٹ ختم کرنے،سابق رجسٹرار محمد طارق جوگیزئی کو سزا کے طور پر لازمی ریٹائر کرنے کی سفارشات دی گئی تھیں، جب کہ اس رپورٹ میں حیران کن طو رپر وائس چانسلر کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی تھی۔

دستاویزات کے مطابق 30جولائی 2020کو یڈیشنل رجسٹرار قاضی عبدالحمید آصف نے رپورٹ نمبر 98/05-reg/UoB/S.M/88th/Syn جمع کرائی جس میں سنڈیکیٹ کے ممبران کے سامنے مذکورہ تمام رپورٹ رکھی گئیں، جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سیف اللہ اور محمد نعیم کو نوکری سے نکالاجائے اور محمد طارق جوگیزئی اور محمد شریف شنواری پر صریح الزامات ثابت نہیں ہوتے اس لئے ان کی دو 2سال کی انکریمنٹ بطور سزا روکی جائیں۔اسی نوٹی فکیشن میں رجسٹرار نے لکھا کہ سیکرٹری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہاشم گلزئی نے سنڈیکیٹ کے 88ویں اجلاس میں نوٹ لکھا تھا کہ وائس چانسلر بھی اس کیس میں ملوث ہیں اس لئے یہ کیس چانسلر کو بھیجا جائے جس کے بعد وائس چانسلر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

حیران کن طور پر سابق وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال اس وقت بلوچستان کی نمائندگی کے طور پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے رکن ہیں، معروف ویڈیو اسکینڈل میں ملوث اعلیٰ ترین عہدے پر فائز افسر کا مستعفی ہو کر خود کو بچا لینا اور بعد ازاں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ممبر کے طور پر بحال رہنا اعلیٰ تعلیمی نظام کے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن سے بلوچستان کے دوسرے ممبر، بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسنز کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر فارق احمد بازئی ہیں، جن کے خلاف اس وقت بلوچستان حکومت مالی خرد برد کی تحقیقات کر رہی ہے، فاروق بازئی کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں گزشتہ سال ایک قرداد بھی جمع کرائی گئی تھی، جس کا مقصد فاروق احمد بازئی کی مالی بد عنوانی پر اسمبلی میں بحث کرانا تھا۔ تاہم مذکورہ قرارداد پر کسی قسم کی بحث نہیں ہو پا رہی ہے۔

دستاویزات کے مطابق بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسنز کی اپنی جاری کردہ رپورٹس میں جامعہ میں 11807 طالب علموں نے داخلہ لیا ہوا ہے (انرولڈ)ہیں، جن سے 30315روپے سمسٹر فیس کے علاوہ وصول کئے گئے ہیں، اس حساب سے یونیورسٹی ایک ارب روپے سے زائد رقم ایک سمسٹر میں وصول کرتی ہے، تاہم مذکورہ رقم سے اگر اسکالر شپ پر پڑھنے والے طالب علموں کو منہا کر دیا جائے تو یہ رقم تقریباً80کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔ لیکن حیران کن طور پر یونیورسٹی انتظامیہ نے مذکورہ رقم کو محض 23کروڑ روپے ظاہر کرکے بلوچستان کی جامعہ ہونے پر خود کو قابل رحم یونیورسٹی کے طور پر متعارف کرکے حکومت پاکستان کے ساتھ دھوکہ دہی کی ہے، جب کہ مالی طور پر بڑے پیمانے پر خرد برد کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ فاروق احمد بازئی نے انہیں کئی اراکین اسمبلی سے علیک سلیک بنا کر حصہ دار بنانے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ سے اسمبلی میں جمع شدہ قرارداد پر کسی قسم کی بحث نہیں ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا فاروق احمد بازئی نے کئی بار انہیں اپنی رہائش گاہ پر بلایا اور ملنے کی دعوت دی، تاہم انہوں نے  ملنے سے انکار کیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ممبر کا کہنا ہے کہ اس کی طرح دیگر اسمبلی اراکین کو بھی خریدا گیا ہے جس کی وجہ سے فاروق احمد بازئی کے خلاف مالی خرد برد پر تحقیقات آگے نہیں بڑھ رہی ہیں اور تاحال بلوچستان حکومت فاروق بازئی کے خلاف انکوائری مکمل کرنے میں ناکام ہے،صوبائی اسمبلی کے ممبر کا دعویٰ ہے کہ ہم ہر قیمت پر فاروق احمد بازئی کے خلاف تحقیقات مکمل کرنے کے حامی ہیں اور کسی بھی صورت یہ تحقیقات مکمل کر ینگے۔ انہوں نے بتایا کہ مذکورہ معاملے کو نیب اور عدالت میں لے جانے کی تگ ودو کی جا رہی ہے اور عنقریب فاروق احمد بازئی کے خلاف نیب میں مقدمہ درج کیا جائے گا۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اسی طرح اس سے قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ٹاسک فورس یا اس کے چیئرمین کا کوئی عہدہ نہیں تھا، یہ عہدہ تخلیق کر کے  کمیشن میں ایک ممبر کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطا الرحمن کو اس کا ممبر بنایا گیا ہے، جب کہ ٹاسک فورس خود ایک مصروف رہنے والا ٹاسک ہے جس کے باوجود ڈاکٹر عطالرحمن وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے والے پروجیکٹ کے علاوہ 5ارب روپے کی اسکالرشپ کی مشاورتی کونسل کے سربراہ بھی ہیں، جبکہ ایچ ای جے جیسے ادارے کے شفاف آڈٹ کرنے پر بھی نالاں ہیں اور وفاقی محکمہ تعلیم سے اس آڈٹ پر اعتراض بھی لگوا چکے ہیں، جن کا ایچ ای سی کا ممبر ہونا خلاف ضابطہ اور جانبدارنہ عمل ہے۔اس حوالے سے ڈٖاکٹر عطاالرحمن سے ان کے موبائل نمبر پر رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون مصروف کردیا جس کے بعد ان کو سوالات بھیج دیئے گئے ہیں جن کے جوابات موصول ہونے پر شائع کردیئے جائیں گے۔

Related Posts