جنسی جرائم اور نامرد بنانے کا قانون، کیا مسئلہ حل ہوپائیگا ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Castration in Men

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، عصمت دری ہر معاشرے کا مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں جنسی زیادتی کے مجرموں کو سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے معاملہ شدت اختیار کرتا جار ہا ہے ،آج کے ترقی یافتہ دور میں خواتین، بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات دیکھ کرروح کانپ جاتی۔

ملک میں امن و امان ، معیشت اور دہشت گردی کے علاوہ جنسی زیادتی کے واقعات حکومت کیلئے بھی درد سر بن چکے ہیں جس کی وجہ سے حکومت نے جنسی زیادتی کے مجرموں کو نامرد کرنے کے قانون کی اصولی منظوری دے دی ہے، خواجہ سراؤں کے ساتھ جنسی زیادتی کو بھی عصمت دری تصور کیا جائے گا۔اس قانون کے تحت ایک کیمیکل کے ذریعے ایک مخصوص مدت کیلئے مجرموں کی جنسی صلاحیت ختم کردی جائیگی تاہم مردانہ اعضاء سے محروم نہیں کیا جائیگا۔

کیسٹریشن ہوتی کیا ہے ؟
کیسٹریشن دوطرح کی ہوتی ہے، ایک تو یہ ہے کہ آپریشن ک ےذریعے مرد کو مخصوص اعضاء سے محروم کردیا جاتا ہے دوسری یہ ہے کہ کیمیائی ادویات سے جنسی صلاحیت ختم کردی جاتی ہے تاہم کیسٹریشن کے باوجود مردانہ اعضاء کام کرتے ہیں لیکن غالب امکان ہے کہ اس سے جنسی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔آپریشن میں یکبارگی معاملہ ختم ہوجاتا ہے لیکن کیمیائی طریقہ کار میں گولی یا ٹیکہ لگانا پڑتا ہے جو کافی مہنگا اور مستقل عمل ہے۔

قانون کے نکات
حکومت کی جانب سے تیار کردہ اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 کے مسودہ کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں۔
1۔خواتین پولیسنگ، فاسٹ ٹریک مقدمات اور گواہوں کا تحفظ مجوزہ قانون کا بنیادی حصہ ہوگا۔
2۔متاثرہ خواتین یا بچے بلا خوف و خطر اپنی شکایات درج کراسکیں گے۔
3۔متاثرہ خواتین و بچوں کی شناخت کے تحفظ کا خاص خیال رکھا جائیگا۔
4۔اس قانون میں 10 سے 25 برس قید کے علاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں ہوں گی۔
5۔ کیمیکل کیسٹریشن کچھ کیسز میں مخصوص مدت کیلئے یا زندگی بھر کیلئے ہو سکے گی۔
6۔جنسی زیادتی کے ملزمان کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں ہوگا۔
7۔مقدمات کا فوری اندراج کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی ذمہ داری ہوگی۔
8۔زیادتی کے شکار افراد کے طبی معائنے کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوگا ۔
9۔متاثرہ افراد سے جرح صرف جج اور ملزم کا وکیل کر سکے گا۔
10۔ مقدمات کا ٹرائل ان کیمرا ہوگا، نادرا تمام ملزمان کا ڈیٹا مرتب کرے گا۔

دنیا میں کیسٹریشن کا قانون
امریکا، کینیڈا، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، فین لینڈ، سویڈن اور انڈونیشیا میں کیسٹریشن کا قانون موجود ہے ،ان ممالک میں آپریشن کے علاوہ کیمیائی ذرائع سے نامرد بنانے کا طریقہ کار بھی رائج ہےتاہم انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ کاسٹریٹ کرنا انسانی حقوق کے منافی عمل ہے اور جنسی جرائم کے مجرموں کو مروجہ قوانین کے مطابق سزائیں دی جائیں ۔

سفارشات و سزاؤں کی تجاویز
حکومت اینٹی ریپ آرڈیننس کا منظور کردہ مسودہ صدر مملکت کو ارسال کریگی اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد یہ قانون نافذ العمل ہوگا، اینٹی ریپ قانون کے مطابق مجرموں کو ان کی رضامندی سے کیمیائی طریقہ سے نامرد کیا جائے گا، انہیں نامرد کرنا انکی بہتری کی جانب ایک قدم ہوگا۔

وزیر قانون کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں جنسی مجرموں کو نامرد بنائے جانے کے قوانین ہیں، جنسی جرائم کے مرتکب مجرموں کو 25 برس قید کےعلاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں ہوں گی۔وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ کیمیکل کیسٹریشن کے کچھ کیسز میں مخصوص مدت کیلئے یا زندگی بھر کیلئےہوسکے گی۔

مذہبی اختلاف
جنسی زیادتی کے مجرموں کو نامرد بنانے کے قانون کے حوالے سے مذہبی علماء کی طرف سے شدید اعتراض سامنے آیا ہے۔ تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کے صدراورمرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان مجرموں کو نامرد بنانے کیلئے آرڈیننس کو شریعت کے منافی قرار دیدیا ہے۔

مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ مجرموں کو نامرد بنانااللہ اوراس کے رسول سے جنگ کرنا ہے، اگرحدود آرڈیننس کے قانون پر عمل درآمد ہوجائے تو یہی کافی ہے۔اللہ پاک نے قرآن مجید میں اور حضورﷺ نے حدیث مبارکہ میں اس فعل کے ہر قسم کے قوانین بتا دیئے ہیں۔ کسی کو نامرد بنانا قرآن اور حدیث سے متصادم ہے۔ انہوں نے ایک بار پر مجرموں کو شریعت میں متعین کردہ سزائیں دینے پر زور دیا ہے۔

مسئلے کا حل
پاکستان میں کبھی قانونی سقم کا فائدہ اٹھاکر تو کبھی بااثر شخصیات کے دباؤ پر جنسی زیادتی کے مجرم سزاؤں سے بچ نکلتے ہیں،اس وقت ملک میں بلاتفرق ہر مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین ،بچوں اوربچیوں سے زیادتی کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔

حکومت اور مذہبی رہنماء بھی اس معاملے کی سنگینی سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس گھناؤنے فعل سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، اب حکومت نے جنسی درندوں کو سبق سکھانے کیلئے ایک قانونی مسودہ تیار کیا ہے تو مذہبی رہنماؤں کو مخالفت کے بجائے قانون میں درستگی کرواکر قابل عمل بنانا چاہیے تاکہ جنسی جرائم میں ملوث سماج دشمن عناصر کو ایسے قبیح فعل سے روکا جاسکے۔

Related Posts