ٹی وی پر خاتون کی ورزش اور انصار عباسی کا زاویۂ نظر، سوچ کیا ہونی چاہئے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ روز ملک کے معروف و سینئر صحافی انصار عباسی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی جب انہوں نے سرکاری ٹی وی چینل پر ایک خاتون کی ورزش پر اعتراض اٹھایا جس پر آج وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ردِ عمل سے نوازا۔ 

بظاہر خاتون کی ورزش میں سوائے چست کپڑوں کے اور کوئی نازیبا بات نظر نہیں آئی۔ فواد چوہدری کے مطابق انصار عباسی جیسے لوگوں کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے، تاہم ہمارا سوال یہ ہے کہ سوچ کیا ہونی چاہئے؟

بات گزشتہ روز کی تھی، جو آج تک چلی آئی، کیونکہ سوشل میڈیا صارفین نے انصار عباسی کے نام سے ایک ٹاپ ٹرینڈ شروع کیا ہے جس میں متعدد افراد نے معروف صحافی کے حق میں اور ان کے خلاف آراء کا اظہار کیا۔ سب سے پہلے یہ دیکھئے، کہ ہوا کیا تھا؟ پھر کچھ اہم آراء آپ کے سامنے رکھیں گے تاکہ صورتحال کا درست تجزیہ ہوسکے۔

انصار عباسی کی رائے

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آج سے 1 روز قبل سینئر صحافی انصار عباسی نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر ایک خاتون کا ویڈیو کلپ شیئر کیا جو ورزش کرتی نظر آئیں۔ 

مذکورہ ویڈیو کلپ ہمارے سامنے ہے، انصار عباسی نے  وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ  وزیرِ اطلاعات شبلی فراز یا معاونِ خصوصی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو بھی مخاطب کیا جس کا مقصد نوٹس لینے کا مطالبہ ہوسکتا ہے۔ 

جب فواد چوہدری نے کہا کہ آپ کو نفسیاتی تھراپی اور معالج سے مشورہ لینے کی ضرورت ہے تو انصار عباسی نے آج انہیں بھی آڑے ہاتھوں لے لیا۔ انہوں نے فواد چوہدری سے کہا کہ آپ ایک ایسی حکومت کا حصہ ہیں جو پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانےکا دعویٰ کرتی ہے۔

بلاشبہ وزیرِ اعظم عمران خان کا تصورِ ریاستِ مدینہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ انصار عباسی نے کہا کہ کیا آپ قرآن اور سنت کی روشنی میں یا آئینِ پاکستان کے تحت اُس ویڈیو کلپ کی کوئی توجیہہ پیش کرسکتے ہیں (کہ وہ جائز یا درست ہے)؟

رابعہ انعم کا مشورہ اور انصار عباسی کا ردِ عمل

نجی ٹی وی کی معروف میزبان رابعہ انعم عبید نے انصار عباسی کو مشورہ دیا کہ آپ وزیرِ اعظم عمران خان سے کہیے کہ صرف خاتون ورزش کررہی تھی اور مرد نہیں کر رہا تھا۔ یہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔

جواباً انصار عباسی نے کہا کہ میں سوشل میڈیا پر اپنے خلاف چلنے والے پراپیگنڈے کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ آپ اسلامی شوز کرتی رہی ہیں، اِس لیے بتا سکتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں کیا فرماتا ہے؟ کیا ہم اِس کے باوجود ایک اسلامی ملک کے سرکاری ٹی وی چینل پر اِس طرح کے ویڈیو کلپ کی توجیہہ پیش کرسکتے ہیں؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پوری دنیا میرے خلاف ہوجائے کہ میں معاشرے میں کسی غیر اسلامی چیز کے خلاف بات کر رہا ہوں تو مجھے ایک لمحے کیلئے بھی پریشانی نہیں ہوگی۔ اس کی بجائے میں اللہ کا شکر گزار ہوں گا۔ 

سینئر صحافی کے خلاف ردِ عمل

بے شک انصار عباسی نے ایک سنجیدہ بات کی، تاہم سوشل میڈیا پر ان کا مذاق بھی اڑایا گیا اور مخالفانہ ردِ عمل سے بھی نوازا گیا۔ سب کچھ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

رِز نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ پی ٹی وی کو چاہئے کہ اپنا سیٹ اور فرنیچر بہتر بنائے۔ نشریات کے معیار پر بھی توجہ دے۔ انصار عباسی یہی کہہ رہے تھے۔ 

شیما مہکر نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ہمیشہ یہ یاد رکھئے کہ گندگی انسانی دماغ میں ہوتی ہے، آنکھ میں نہیں۔ انصار عباسی نے وہ دیکھا جو وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اِس سے مجھے اوریا مقبول جان یاد آ گئے جو کھیلوں میں خواتین کو سپورٹ کرنے کے خلاف رائے دیتے دکھائی دئیے۔ 

https://twitter.com/SheemaMehkar/status/1308072071336005633

ایمان زینب نامی خاتون نے کہا کہ انصار عباسی نے ورزش کرنے والی لڑکی پر تنقید کی جس سے ہمارے معاشرے سے گہرائی سے منسلک ذہنی بیماری کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین کو غائب کردیا جائے۔ وہ خواتین کو کچھ بھی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ چاہے وہ کام کریں، پڑھیں یا ورزش کریں، مسئلہ صرف ان کا اور ایسے بیمار ذہنوں کا ہے۔ 

انصار عباسی کے حق میں ردِ عمل

عائشہ صدیقہ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ انصار عباسی کو جو لوگ پریشان کر رہے ہیں، ان کیلئے کہنا چاہتی ہوں کہ پی ٹی وی ہمارا قومی چینل ہے، اور آپ اسے عام ڈگر پر چلانے کی جتنی بھی کوشش کریں، یہ ریاست کی نمائندگی کرتا ہے۔ اِس طریقے سے خواتین کو دِکھانے سے بے چینی جنم لیتی ہے، پھر آپ لوگ یہ شکایت کیوں کرتے ہیں کہ ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں؟

https://twitter.com/AyeshaAgenda/status/1308261288854904834

رانا ماجد ایڈووکیٹ نے کہا کہ فواد چوہدری غیر اخلاقی مناظر کو ترویج دینا چاہتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہماری کچھ اخلاقی اقدار ہیں۔ بلا شبہ ورزش کرنا ایک ضرورت ہے۔ اِس لیے خواتین ہی ورزش کرتی دکھائی دیتی ہیں؟ کیا مرد ختم ہو گئے تھے؟ انصار عباسی نے جو کہا، وہ درست تھا۔ 

صورتحال کا مختصر تجزیہ 

غور کیا جائے تو یہاں ہمیں سوشل میڈیا صارفین 2 مختلف طبقات میں تقسیم نظر آتے ہیں، ایک وہ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں، قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ جو کچھ پی ٹی وی پر دکھایا گیا، سراسر غیر اسلامی ہے اور یہ نہیں ہونا چاہئے تھا، کچھ اس کا کوئی اور جواز بتاتے ہیں، مثلاً یہ کہ پی ٹی وی ایک سرکاری چینل ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔

دوسری جانب وہ طبقہ ہے جسے آپ لبرل یا روشن خیال کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انصار عباسی پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں اور انہیں ذہنی طورپر بیمار قرار دیتے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ انصار عباسی کو علاج کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان یہ ضرور ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہاں ہر بات اسلام کے مطابق کی جائے۔

قصہ مختصر، انصار عباسی کا مؤقف اپنی جگہ درست ہیں تاہم ان کے مخالفین بھی زیادہ تر غلط نہیں کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو بلاشبہ ہم رہتے ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے یہ غور فرمایا کہ یہاں اسلام کے کتنے اصول حقیقی طور پر رائج ہیں؟

اسلامی اصولوں کی پاسداری سے بڑھ کر ایک مسلمان کیلئے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جہاں بھی کوئی منفی بات دیکھیں، اس کی مخالفت ضرور کیجئے لیکن بعض اوقات حق اور سچ کی بات پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتی۔

لبرلز اپنی جگہ اِس لیے درست ہیں کیونکہ آئین ہر پاکستانی شہری کو آزادی سے جینے کا حق دیتا ہے۔ اسلام نے بھی شریعت کو بزورِ قوت نافذ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اِس کیلئے اولی الامر  یعنی ریاست کی اطاعت لازم قرار دی۔

حق اور سچ کی بات ضرور کیجئے لیکن میڈیا پر پروگرامز کی بجائے اپنے اردگرد کے حالات کو درست کرنا سب سے بہتر ہوگا۔ ہم جو اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، ہمیں سب سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا کہ خود ہمارے اپنے گھروں میں اسلام کس حد تک نافذ ہے۔ اس کے بعد ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی اسلامی ملک بنانے کی بات پر غور کیاجاسکتا ہے۔