ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن پنجاب پر تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن کیلئے رشوت طلبی کا الزام

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن پنجاب پر تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن کیلئے رشوت طلبی کا الزام
ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن پنجاب پر تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن کیلئے رشوت طلبی کا الزام

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لاہور: پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر پر تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن کیلئے رشوت طلب کرنے کا سنگین الزام عائد کیا گیا ہے۔

تفصیلات  کے مطابق چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رائٹ ہینڈ اور ڈائریکٹر پی ایچ ای سی پر الزام ہے کہ انہوں نے رشوت لے کر نجی یونیورسٹی کو چارٹر دینے کی یقین دہانی کرائی۔ کیم فاؤنڈیشن راولپنڈی کی انتظامیہ کا ڈائریکٹر پی ایچ ای سی نعمان مقبول راؤ کے خلاف خط منظرِ عام پر آگیا۔

خط کے متن کے مطابق نیشنل ایکسیلنس انسٹیٹیوٹ راولپنڈی کی فزیبلٹی اور چارٹر کی منظوری کیلئے رشوت کا تقاضا کیا گیا۔ چیئرمین پی ایچ ای سی رشوت لینے والے افسر ڈائریکٹر پی ایچ ای سی کو بچانے کیلئے سرگرم ہیں اور انکوائری سے گریز کر رہے ہیں۔ کیم فاؤنڈیشن راولپنڈی نے 12 دسمبر 2020ء کو سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط لکھا۔

مذکورہ خط کے متن کے مطابق کیم فاؤنڈیشن کے ذیلی ادارے نیشنل ایکسیلنس راولپنڈی کے چارٹر کیلئے درخواست جمع کرائی گئی۔ کیم فاؤنڈیشن کی انتظامیہ نے خط میں الزام عائد کیا کہ پنجاب ایچ ای سی کے ڈائریکٹر نعمان مقبول راؤ نے انسٹیٹیوٹ کی فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری اور منظوری کیلئے کیم فاؤنڈیشن سے 3 لاکھ روپے رشوت طلب کی۔

کیم فاؤنڈیشن راولپنڈی کے خط کے مطابق 1 لاکھ روپے نعمان مقبول راؤ کو نقد ادائیگی ہوئی جبکہ 1 لاکھ روپے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے۔ 1 لاکھ روپے کام مکمل ہونے کے بعد ادا کیے جائیں گے۔ کیم فاؤنڈیشن کے خط کے بعد ایچ ای سی نے چیئرمین پی ایچ ای سی کے نام 6 جنوری 2021ء کو خط لکھ دیا۔

ایچ ای سی کے خط میں کہا گیا کہ نعمان مقبول راؤ پر لگنے والے الزامات مفادات کے ٹکراؤ کے زمرے میں آتے ہیں۔ معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ نعمان مقبول راؤ چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قریبی افسر سمجھے جاتے ہیں جو انہیں بچانے کیلئے مبینہ طور پر سرگرم ہیں۔

تاحال کوئی انکوائری کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی اور نہ ہی ڈائریکٹر پی ایچ ای سی کے خلاف رشوت خوری کے الزام پر کوئی تحقیقات شروع ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے چیئرمین پی ایچ ای سی ڈاکٹر فضل احمد خالد سے مؤقف لینے کیلئے متعدد بار رابطہ کیا گیا، تاہم انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ 

Related Posts