جناب آغا خان سرحدوں سے بے نیاز ، رنگ و نسل کی تفریق سے بالاترانسان دوستی، اعلیٰ ظرف قیادت او ربے لوث انسانی ہمدردی کی روزِ روشن کی طرح عیاں اور زندہ جاوید مثال ہیں۔
دنیا کے چپے چپے میں مفلسی سے دوچار اور جہالت سے نبرد آزما انسانوں کیلئے ان کی انتھک محنت، لگن اور عزمِ مصمم سے بھرپور کاوشوں کا ڈنکا بجنا ایک فطری امر ہے۔ 13 دسمبر 1936ء کے طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سوئٹزر لینڈ کی سرزمین پر روشنی کی ایسی کرن پھوٹی جو بد ترین تاریکیوں سے برسرِ پیکار نوعِ انسانیت کیلئے دورِ حاضر میں بھی کسی شمع سے کم نہیں۔
یہ وہ دن ہے جس میں پرنس کریم آغا خان نے جنم لیا اورروئے زمین پرانتہائی ناگفتہ بہ مشکلات اور نامساعد حالات کا سامنا کرنے والے پسماندہ و درماندہ انسانوں کو ان کا غمگسارمل گیا۔ انہیں اپنے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کی وفات کے بعد عظیم ورثے کے طور پر20 سال کی نو عمری میں ہی شیعہ مسلمان اسماعیلی جماعت کی امامت کی انتہائی اہم ذمہ داری سنبھالنی پڑی۔ امامت کے ابتدائی دور سے ہی جناب آغا خان نے فطری صلاحیتوں اور بے پناہ قائدانہ جوہر کے ساتھ اپنی جماعت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانا شروع کیا۔ ان کی ولولہ انگیز قیادت نہ صرف اسماعیلی برادری کی تعلیم، صحت اور اقتصادی ترقی کے شعبہ جات بلکہ دنیا کے پسماندہ افراد کی زندگیوں میں بے شمار مثبت تبدیلیوں، خوشگوار احساسات اور ناقابلِ فراموش واقعات کا سرچشمہ ثابت ہوئی۔ ان کاکسی چٹان کی طرح یقینِ کامل رہا کہ تعلیم کی طاقت ہی انسان کو نہ صرف بااختیار بنا سکتی ہے بلکہ زندگی کے گوناگوں چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی و خوشحالی کا زینہ بھی بن سکتی ہے۔ اور یہ یقین کیوں نہ ہوتا؟ کیونکہ آغا خان کے دادا نے 1905ء میں ہی آغا خان ایجوکیشن سروسز جیسے عظیم الشان ادارے کی بنیاد رکھ دی تھی جس نے نسل در نسل لاکھوں افراد کی زندگیوں کو علم کی روشنی سے منورکیا۔ آپ نے اس گراں قدر اور متمول ادارے کی آبیاری میں اپنی زندگی کو وقف کرکے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دیکھنے یا سمجھنے سے نہیں، صرف محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے، بقول جولیس سیزر:
”وہ آیا، اُس نے دیکھا اور فتح کر لیا!“
آج یہ مؤقر ادارہ 200 سے زائد اسکولوں اور اَن گنت تعلیمی پروگراموں کے ساتھ دنیا کے 25 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ آغا خان کسی بھی مخصوص سرزمین کی حکمرانی سے بالاتر ایک ایسی قدآور شخصیت ثابت ہوئے جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر اپنی امامت کےر وزِ اوّل سے راج کر رہے ہیں ۔ ان کے پیروکار ان کی ہدایات کو حرفِ آخر سمجھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آغا خان نے بلا امتیاز رنگ و نسل تعلیم کے اصل ثمرات کے حصول کی خاطر صحت کے شعبے میں مسیحائی کی وہ گراں مایہ خدمات سرانجام دیں جو لازوال کاوشوں کی بلند وبالا مثال سے کم نہیں۔ 1970 ء میں آغا خان ہیلتھ سروسز کی بنیاد رکھی گئی جو بتدریج ترقی پذیر دنیا میں شعبۂ صحت کی خدمات فراہم کرنے والے صفِ اوّل کے اداروں میں شامل ہوگیا اور جوبے شمار بیماریوں سے مسلسل تکالیف کا شکار عوام کے علاج معالجےاورزچہ و بچہ کی صحت کیلئے متعدی اور غیر متعدی امراض کے خلا ف علم و آگہی کو فروغ دے رہا ہے۔ آغا خان کو اپنی برادری سے بالاتر ہو کر انسانی فلاح وبہبود کیلئے اپنی خدمات کے باعث خاموش شہزادہ کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
آپ کو خاموش شہزادہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ خدمتِ انسانیت کیلئے اپنی زندگی کو وقف کردینے کے باوجود آغاخان نے کبھی اپنے کارناموں کا پرچار نہیں کیا بلکہ خاموشی سے اپنی خوشبو مسلسل بکھیرتے رہنے پر توجہ دی ۔ آج یہی خوشبو بے شمار افراد کو پرنس کریم آغا خان کی بے پایاں خدمات کا اعتراف کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ فروری 1981ء میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے آغا خان یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کے موقعے پر یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ ”آغا خان ایک ایسے پر کشش پھول کی مانند ہیں جس میں بے پناہ خوش ذائقہ رس موجودہے۔ شہد کی مکھیاں رس حاصل کرنے کیلئے آپ کے اردگرد ہمیشہ منڈلاتی رہتی ہیں۔“
عالمی برادری آغا خان کی غیر معمولی قیادت اور انسانیت کیلئے بے پناہ خدمات کی اس سطح پرمعترف نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے اور ان کے بجائے دیگر شخصیات کو زیادہ پذیرائی دی گئی۔ گو کہ آغا خان کو اپنی عظیم خدمات کے اعتراف میں متعدد ایوارڈز اور اعزازات دئیے گئے جن کا ذکر آئندہ صفحات میں آئے گا جبکہ انسانیت کی بہتری ، فلاح و بہبود اور تعلیم و ترقی کیلئے محترم آغا خان کی انتھک لگن اس بات کی بیّن مثال ہے کہ حقیقی قیادت اور انسان دوستی کا کیا معیار ہونا چاہئے۔ انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے وقف کر رکھی ہےاور جواباً دنیا کے مختلف حلقوں سے بھی جو بن پڑاوہ آغا خان کی عظیم قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا کوئی نہ کوئی انداز اپناتے رہے، جبکہ ان کو دئیے گئے اعزازو اکرام اور تعریف و تحسین بھی آپ کے اَن گنت کارناموں کے سامنےہیچ محسوس ہوتی ہے کیونکہ آپ کے کارہائے نمایاں گزشتہ و موجودہ کے علاوہ آنے والی نسلوں بھی کیلئے نہ صرف ممد و معاون بلکہ مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔