افغانستان کی صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے

کالمز

Role of Jinn and Magic in Israel-Iran War
اسرائیل ایران جنگ میں جنات اور جادو کا کردار
zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟

افغانستان کے حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ الفاظ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ہیں جب انہوں نے طالبان کے حملوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ افغانستان میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں کیونکہ طالبان جنگجوؤں نے 34 میں سے 18 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور آہستہ آہستہ کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

امریکہ اور دیگر مغربی حکومتیں سفارت خانے بند کرنے اور عملے کو نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ افغان فورسز نے اپنے ملک اور قوم کے دفاع سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں اور اہلکار تیزی سے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں جبکہ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ افغان حکومت طالبان سے لڑنے کے لیے پوری طرح لیس ہے لیکن زمینی صورتحال افغان فوج کی اصلاح پر خرچ کیے گئے اربوں روپے پر سوال اٹھا رہی ہے۔

کئی مقامات پر افغان فوج نے طالبان کا مقابلہ کیا مگر متعدد جگہوں پر بغیر لڑائی کے ہتھیار ڈالتے ہوئے طالبان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ہزاروں پولیس اہلکاروں نے اپنی پوسٹیں خالی کردی ہیں۔

ملک میں استحکام اور سلامتی لانا اشرف غنی حکومت کا مطمع نظر ہے۔ اس کے لیے انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا ہے ان کا کہنا ہے اس طرح حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ انہوں نے تشدد اور افغان عوام کی نقل مکانی کو روکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

ممالک افغان مہاجرین کی آمد کے لیے اپنے طور پر تیاری کررہے ہیں۔ تشدد سے خوف زدہ لوگ پاک افغان سرحد پر جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے خانہ جنگی کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔

طالبان نے افغانستان میں تیزی حاصل ہونے والی کامیابیوں کے پیش نظر دوحہ مذاکرات میں جنگ بندی کا معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔

دو بڑے شہروں ہرات اور قندھار پر قبضے کے بعد طالبان اور افغان فورسز کے درمیان ایک بڑی جنگ کا امکان پیدا ہو گیا ہے کیونکہ اگر کابل پر قبضہ ہوجاتا تو سارا ملک طالبان کے زیرسایہ آجائے گا۔

افغانستان میں موجودہ امن عمل کو متاثرہ ہونے کا ذمے دار امریکا کو ٹھہرایا جارہا جس سے ملک سے اچانک نکل جانے کا اعلان کیا تھا۔ دو دہائیوں کی جنگ اور دو کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔

امریکہ افغانستان کی تعمیر نو میں ناکام رہا اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی نے تمام اداروں کو ناکارہ بنا دیاہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم کے حوالے سے کیے گئے تمام اقدامات ختم کردیے جائیں گے اور امریکی کی بے اعتناعی سے افغان عوام ایک بار پھر مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں اس لئے اقوام عالم کو صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے اور افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی راہ اختیار کرنی چاہیے تاکہ افغانستان میں کوئی نیا انسانی المیہ جنم نہ لے سکے۔