مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کی زندگی پر ایک نظر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کی زندگی پر ایک نظر
مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کی زندگی پر ایک نظر

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی آنجہانی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کا 69 واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاں 21 جون 1953 کو جنم لینے والی بے نظیر بھٹونے بے شمار سیاسی و سماجی اتار چڑھاؤ دیکھے اور اُن گنت منازل پر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔

آیئے آج اُن کی یومِ پیدائش کے دن بے نظیر بھٹو کی زندگی، دورِ اقتدار اور اعزازات سے شہادت تک کے سفر کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کتنی عظیم خاتون تھیں جنہیں خدا نے سن 2007ء میں اپنے پاس بلا لیا اور وطن واپسی کے بعد وہ پھر کبھی ایوانِ اقتدار پر براجمان نہ ہوسکیں۔

خاتون وزیراعظم کی ابتدائی زندگی اور تعلیم

والد ذوالفقارعلی بھٹو کے زیرِ سایہ بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم کراچی میں واقع لیڈی جیننگز نرسری اسکول کے ساتھ ساتھ کانوینٹ آف جیسز اینڈمیری سے حاصل کی۔ 2 سال تک راولپنڈی اور کچھ عرصے تک مری میں بھی تعلیم حاصل کی۔ او لیول 15 سال کی عمر میں پاس کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں1969ء میں داخلہ مل گیا۔

سن 1973ء میں20 سال کی عمرمیں محترمہ نے گریجویشن مکمل کی۔ ماسٹرز آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات، سیاسیات اورفلسفے میں کیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ہر شعبۂ زندگی میں آسانیوں کے ساتھ ساتھ گوناگوں مشکلات اور پریشانیوں سے بھی واسطہ پڑتا رہا۔

سیاسی زندگی

جون 1977ء میں بے نظیر بھٹو وزارتِ خارجہ میں تعیناتی کیلئے وطن لوٹیں لیکن جلد ہی جنرل ضیاء الحق نے حکومت ختم کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو جیل بھیج دیا۔ ملک بھر میں مارشل لاء نافذ تھا۔ بے نظیر کو بھی نظر بند کردیا گیا۔ سن 1979ء میں والد کو پھانسی کی سزا ہوگئی۔ 81ء میں بے نظیر بھٹو نے مارشل لاء ختم کرنے کیلئے ایم آرڈی اتحاد کے تحت سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔

سن 80ء کی دہائی کے اواخر میں بے نظیر کو پیپلز پارٹی کی سربراہ بنایا گیا۔ اپریل 1986ء میں وطن واپسی پر بے مثال استقبال ہوا۔ سن 1987ء میں آصف علی زرداری سے شادی ہوئی۔ 1988ء میں ضیاء الحق کی وفات کے بعد جمہوریت کے راستے کھل گئے۔ غلام اسحاق خان نے قائم مقام صدرکی حیثیت سے انتخابات کروائے۔

دسمبر 1988ء کی 2 تاریخ وہ لمحہ تھا جب بے نظیر پہلی بار ملک کی وزیرِاعظم بنیں۔ اس وقت ان کی عمر 35 سال تھی۔ اسلامی دنیا میں بے نظیر کے بعد خاتون وزرائے اعظم کا دور شروع ہوا۔ اگست 1990ء میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت بے نظیر کی حکومت ختم کردی گئی۔ 2 اکتوبر 1990ءکو ہونے والے انتخابات میں نواز شریف وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

بدعنوانی کے الزام میں نواز شریف حکومت کو بھی برطرفی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اکتوبر 1993ء میں بے نظیر ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کی حقدار ٹھہریں۔ 1996ء میں پیپلز پارٹی رہنما فاروق لغاری نے صدرکی حیثیت سے بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل اور بدامنی کے الزامات کے تحت برطرف کردیا۔

بے نظیر بھٹو پر کونسے الزامات لگائے گئے

شہید بے نظیر بھٹو پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوئے اور اکتوبر 2007ء میں جب وہ وطن واپس آئیں تو کہا گیا کہ انہوں نے امریکہ سے امداد حاصل کرتے ہوئے مشرف سے ساز باز کی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے خلاف قائم مقدمات ختم ہو گئے۔

الزام یہ بھی ہے کہ سابق صدرِپاکستان آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ہی 1 ارب 50 کروڑڈالرکے ناجائز اثاثے حاصل کرکے اپنی مالی حیثیت کو نہ صرف مضبوط اور مستحکم کیا بلکہ ان کا نام دنیا کی سب سے زیادہ دولت رکھنے والی شخصیات میں لیا جانے لگا، تاہم سیاست اور تنازعات لازم و ملزوم ہوا کرتے ہیں، اس لیے یہ معاملات یہیں چھوڑتے ہیں۔

بطورِ وزیراعظم کیا کام کیے

محترمہ بے نظیربھٹو نے ملک کی وزیرِاعظم کے طور پر خواتین کیلئے بے شمار کام کیے۔ انہوں نے آئینِ پاکستان سے خواتین کے خلاف امتیازی قوانین ختم کرتے ہوئے ریاست میں انہیں مردوں کے برابر حقوق دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انسانی حقوق محفوظ بنانے کیلئے وزارتِ انسانی حقوق بنائی۔

دورِآمریت میں زبردستی ہزاروں مزدوروں کو نوکریوں سے محروم کردیا گیا اور اپنے من پسند افراد کی تعیناتیاں کی گئیں، جس کے خلاف عملی قدم اٹھاتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے 40 ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمتوں پر بحال کیا۔ ہر شہرمیں لیبرکالونیز بنائی گئیں تاکہ محنت کش افراد وہاں رہائش اختیار کرسکیں۔

وزارتِ انسانی حقوق کا کام ملک بھر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل درآمد ہے۔ ظلم و ستم کا خاتمہ اس وزارت کی اہم ترجیح ہے۔ غریب مزدور پیشہ اور مفلوک الحال محنت کش سخت کام کے باوجود بھی ظلم و ستم کا شکار رہتے ہیں جن کیلئے قانون سازی اور ٹریڈیونینز پر بے جا پابندیوں کا خاتمہ بے نظیر بھٹوکے دور میں ہوا۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے آئی ایل او کے مطابق ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ملازمتیں وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے دورِاقتدار کے دوران تخلیق ہوئیں جس سے معاشی مسائل حل ہوئے اور معیشت بہتری کی جانب گامزن ہونے لگی جبکہ ملک بھر میں توانائی کا بحران ختم کرنے کیلئے ایک اور قابلِ تحسین اقدام اٹھایا گیا۔

قومی کمیشن برائے خواتین کے نام سے ادارے کا قیام بے نظیر بھٹو کے دور میں عمل میں لایا گیا۔ فرسٹ ویمن بینک، خواتین کا علیحدہ پولیس اسٹیشن اور بے نظیر بھٹو انکم اسپورٹ پروگرام کے تحت خواتین کیلئے قرضے دینے کے وسیع پروگرام سے خواتین کو ہر شعبۂ زندگی میں معاشی و سماجی امداد فراہم کی گئی۔

آزادئ صحافت کیلئے میڈیا سے سینسر کا خاتمہ بھی بے نظیر بھٹو کے دور میں ہوا۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ غیر ملکی میڈیا ٹرانسمیشن کیلئے آزاد پالیسی بھی تشکیل دی گئی۔ انسدادِپولیو مہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی۔ پولیو کا مکمل خاتمہ ہوا جس پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کی تعریف کی۔

بے نظیر بھٹو نے سن 1994ء میں ایک نئی پاور پالیسی کا اعلان کیا۔ ملک بھر میں توانائی، بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کا بحران خاتمہ ہوا، جس سے معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ کم و بیش 1 ہزار 800 شہروں کو بجلی فراہم کی گئی۔ 15 لاکھ گیس کنکشنز فراہم کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا۔

پاکستان اسٹیل ملزکو منافع بخش ادارہ بنایا گیا جبکہ اسٹیل ملزایک ایسا ادارہ ہے جو ملکی معیشت کو بھرپور سہارا فراہم کرسکتا ہے تاہم موجودہ حکومت اور گزشتہ حکومتوں سمیت ملک کا کوئی بھی وزیرِاعظم اسٹیل مل کو دوبارہ اس نہج پر کھڑا نہ کرسکا جیسا کہ محترمہ کے دور میں ہوا۔ کراچی میں پورٹ قاسم کو وسعت دی گئی جس کی ثمرات آج تک عوام الناس سمیٹ رہے ہیں۔

خاتون وزیرِاعظم کی شہادت

مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو سال 2008 کے انتخابات کے حوالے سے 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد جلسہ گاہ سے روانہ ہو رہی تھیں کہ پہلے اُن پر فائرنگ کی گئی اوربعد میں خودکش دھماکہ کیا گیا جس میں وہ شہید ہوگئیں۔

خیال یہ تھا کہ دو بار منتخب ہونے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے قتل کے پیچھے چھپے کرداربے نقاب ہوکر انجام تک پہنچیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوااور آج تک اُن کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔

Related Posts