بلوچستان کی سیاست

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بلوچستان میں جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے وہ شاید صوبے تک محدود نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں تک پھیل سکتا ہے۔ حالیہ پیش رفت، جس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سامنے آئی، شروع میں تو معمولی نظر آسکتی ہے لیکن سیاسی منظر نامے کو بدل سکتی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) 2018 میں مختلف جماعتوں کے مخالفین کی جانب سے تشکیل دی گئی اور جلد ہی صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ جس نے جام کمال کو منتخب کیا، جن کا تعلق نواب لسبیلہ کے خاندان سے تھا، اس کے کچھ عرصے بعد وہ پارٹی صدر اور وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ مگر حالیہ کچھ مہینوں سے صوبائی اسمبلی میں بننے والی صورتحال کے بعد پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

بی اے پی کے کئی ناراض سیاستدانوں اور ان کے اتحادیوں نے وزیر اعلیٰ پر دباؤ بڑھانے کے لیے تحریک عدم اعتماد دائر کی ہے۔ انہوں نے اس کی بڑی وجہ بے روزگاری اور بدامنی کو قرار دیا،ناراض اراکین نے اپنی پارٹی قیادت کو چیلنج کرنے کے لیے پارٹی کا نیا صدر مقرر کیا ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال نے آخری وقت تک تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے عزم ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی موجودگی میں نئے صدر کا نام لینے پر بھی تنقید کی ہے اور استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے ناراض قانون سازوں کو راضی کرنے کی کوششیں ناکام رہیں اور بلوچستان میں سیاسی بحران مزید بڑھ گیا ہے۔

بلوچستان کو اکثر پاکستان کی سیاست کی گھنٹی سمجھا جاتا ہے۔ 2013 میں، پیپلز پارٹی اپنی صوبائی حکومت کو معطل کرنے اور گورنر راج لگانے پر مجبور ہوئی، جبکہ 2018 میں، مسلم لیگ (ن) کو اقتدار سے صرف چند ہفتوں بعد ہی اقتدار سے باہر کردیا گیا۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں کس طرح قومی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف کوششیں آئینی ہیں لیکن پارٹی ممبران کے تحفظات کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں قیادت میں تبدیلی آسکتی ہے، جس کا صوبے نے مشاہدہ کیا ہے، یا یہاں تک کہ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتی ہے، بلوچستان میں سردار اور سیاستدان اکثر ان جھگڑوں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے سیاسی صف بندی کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

صوبے میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہے، وہاں کی عوام طویل عرصے سے شورش، قتل و غارت گری اور ترقی کی کمی کا مشاہدہ کررہی ہے، اس سے وہاں موجودہ سیٹ اپ کونقصان پہنچ سکتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان لوگوں کے مسائل حل کرے اور صوبے کے لوگوں کی مدد کرے۔

Related Posts