اسلام آباد: پاکستان نے بدھ کے روز اس مسودہ قانون کو جو حال ہی میں امریکی سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا، کو “مکمل طور پر ناجائز” اور “پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستانہ تعلقات کے منافی قرار دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان مسئلے پر 2001 سے امریکا سے تعاون کررہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مسودے میں پاکستان سے متعلق مؤقف ناقابل قبول ہے، یہ بل پاکستان اور امریکا کے 2001 میں قائم ہونے والے خصوصی تعلقات سے متصادم ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے میڈیا کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاک امریکا تعاون خطے میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ناگزیر ہے، مجوزہ قانون سازی پر اقدامات غیر معقول ہیں۔
انہوں بتایا کہ “امریکی سینیٹ میں ری پبلیکنز سینیٹرز کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا جس میں افغان طالبان کی مدد کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹرز کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں پاکستان کو ذکر بالکل بے بنیاد ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کا ہمیشہ سے یہی مؤقف رہا کہ افغانستان معاملے کا فوجی حل نہیں ہے، افغانستان پر ایک جبری نظریہ نافذ نہیں کیا جاسکتا، افغانستان میں پائیدار امن کا واحد راستہ بات چیت اور مذاکرات ہے‘۔
2001 سے شروع ہونے والی افغان میں پاکستان امریکا کا اتحادی رہا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان امن عمل ہمیشہ سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے امریکہ سمیت دیگر ممالک کے شہریوں کو اگست کے مہینے میں افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کی تھی۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان مسئلے کے حل کے لیے ہمیشہ بامقصد مذاکرات پر زور دیا ہے۔ کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
مجوزہ بل۔
بائیس امریکی سینیٹرز نے امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا ہے ، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح گہرائی سے تفتیش کی جائے اور اس گروپ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں جنہوں نے اشرف غنی کی قیادت والی حکومت کو ختم کرنے میں طالبان کی مدد کی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ پنج شیر میں پاکستانی مداخلت کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں اور افغانستان میں طالبان کا ساتھ دینے والی ریاستوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں : بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے میں پی ٹی آئی کی حکومت ناکام کیوں؟