اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے منعقد کی آل پارٹیز میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی جانب ریاستی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، اب حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ہر طرح کے سخت فیصلے اُٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے، کیونکہ اپوزیشن حکومت کے خلاف احتجاج شروع کرنے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہوگئی ہے۔
ایک ہی دن میں ہم نے دو بڑی پیشرفت دیکھیں، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد نیب نے گرفتار کرلیا۔دوسری جانب اسلام آباد میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور پر فرد جرم عائد کردی گئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حزب اختلاف کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی تو احتساب مزید سخت کردیا جائے گا۔
شہباز شریف نے متنبہ کیا تھا کہ حکومت انہیں گرفتار دیکھنا چاہتی ہے اور ان کی با ت سچ ثابت ہوگئی، اے پی سی کی دوسری جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف یا فوج، مشکل انتخاب کرنے پر مجبور ہیں، احسن اقبال یہ بیان دینے پر مجبور ہوئے کہ اے پی سی میں نواز شریف کی تقریر ان کی ذاتی رائے تھی اور پارٹی فوج کے مخالف نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارٹی ممبران کے مابین کوئی نظریاتی فرق نہیں ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جو اے پی سی کے بعد تشکیل دی گئی تھی، جانشین کے نام کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ جے یو آئی(ف)نے اس تحریک کی سربراہی کے لئے مولانافضل لرحمن کا نام تجویز کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی ابھی تک اپوزیشن نے توثیق نہیں کی ہے، اور پیپلز پارٹی نے انہیں تحریک کی قیادت کرنے کے نام دینے کی مخالفت کی ہے۔ مولانافضل کی اپنی پریشانی بھی ہے کیونکہ انہیں نیب نے طلب کیا ہے۔ انہوں نے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے، اور وہ اگلے ماہ کوئٹہ میں پہلے احتجاجی مارچ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا موازنہ تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) سے کیا جارہا ہے، جو جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف قائم کی گئی تھی، یہ تاریخ کی سب سے بڑی جمہوریت نواز تحریک تھی۔اس تحریک سے اس کا موازنہ کرنا گمراہ کن ہوگا اور یہ تحریک ناکامی کے ساتھ اختتام پذیر ہوجائے گی، کیونکہ حزب اختلاف ابھی تک عمران خان کی حکومت کے خلاف متحد نہیں ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ منقسم ہے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اے پی سی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نیب حکومت کے کہنے پر کام کر رہا ہے۔ یہ حربے پہلے بھی استعمال ہوچکے ہیں اور اب یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا احتساب کی مہم اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی یا حکومت کو چیلینج کرنے پر اپوزیشن کو محض ان کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔