اسرائیل نے 48 گھنٹوں میں 480 فضائی حملے کرتے ہوئے ایک زمینی حملے کے ساتھ مل کر شام کی ایسی زمین پر قبضہ کر لیا ہے جو غزہ کی پٹی کے رقبے کے دگنی ہے، جو کہ 360 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج اب دمشق سے چند کلومیٹر کی دوری پر ہے کیونکہ وہ شہر کے نواحی علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کر رہی ہے۔
اتوار کو بشار الاسد کی حکومت کے باغی قوتوں کے ہاتھوں ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے اس بے نظمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولان کی بلندیوں کے حفاظتی علاقے پر قبضہ کر لیا جو کہ 1974 کے معاہدے کی ایک بڑی خلاف ورزی ہے۔
جبل حرمون جو کہ ایک اہم اسٹریٹجک نقطہ اور شام کی بلند ترین چوٹی ہے، بھی اسرائیل کے زیر قبضہ آ چکی ہے۔
برطانیہ کی بنیاد پر قائم شامی مشاہدہ برائے انسانی حقوق (SOHR) کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں نے حمص میں الشیرات ہوائی اڈے اور شمالی رقہ میں ایک فوجی تنصیب کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں اسرائیل نے شام میں ایک کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار کی جگہ بھی نشانہ بنایا۔
رہائی پانے والے قیدیوں نے شامی جیلوں کے شرمناک رازوں سے پردہ اٹھادیا
شام میں موجود اپوزیشن فورسز نے اسرائیلی حملے کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ اس دوران اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ گولان کی بلندیوں کا علاقہ اسرائیل کا “ہمیشہ” کا حصہ رہے گا۔
اقوام متحدہ نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے، ساتھ ہی عرب ممالک جیسے ایران، عراق، قطر اور سعودی عرب نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔
یاد رہے کہ باغی جنگجو اتوار کی صبح بغیر کسی مزاحمت کے دمشق میں داخل ہوئے اور عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام اور اس کے اتحادیوں نے اعلان کیا کہ بشار الاسد شام چھوڑ چکے ہیں۔
اس کے بعد اپوزیشن فورسز نے دمشق پر کنٹرول حاصل کر لیا، جس میں ریاستی ٹی وی، ریڈیو اسٹیشن اور وزارت دفاع شامل ہیں۔صدر بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار محض ایک ہفتے میں ختم ہو گیا۔