شامی جیلوں سے رہائی پانے والے قیدیوں کی جانب سے ناقابل تصور مصائب کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، جو بشار الاسد کے دور کے خاتمے اور باغیوں کی فتح کے بعد منظر عام پر آئی ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اسد حکومت کے خاتمے اور باغیوں کے دمشق اور دیگر علاقوں پر کنٹرول کے بعد ہزاروں سابق قیدی ہولناک تجربات بیان کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک سابق قیدی نے کہا، “جیل میں میرا کوئی نام نہیں تھا، صرف ایک نمبر تھا۔ اسد حکومت نے مجھے گرفتار کیااور میرے خاندان نے سمجھا کہ میں مر چکا ہوں۔”
بشار دور میں 12 لاکھ شامی شہریوں پر ہولناک جسمانی، جنسی، نفسیاتی تشدد کا انکشاف
اس نوجوان نے بتایا کہ بہت سے دوسرے بھی اپنے خاندانوں کی لاعلمی میں گرفتار کیے گئے اور کئی سال قید میں گزارے۔
رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ حال ہی میں آزاد ہونے والوں میں سے کچھ تو پھانسی کے قریب تھے۔ ایک سابق قیدی نے انکشاف کیا، “ہم میں سے 54 افراد کیلئے 30 منٹ پہلے پھانسی کی تاریخ طے کی گئی تھی۔ اب ہم دمشق کے قلب میں آزاد کھڑے ہیں۔”
ایک اور سابق قیدی علی حسن نے 39 سال بعد رہائی پائی۔ 1986 میں شمالی لبنان کے ایک چیک پوسٹ پر شامی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے وقت علی صرف 18 سال کے اور ایک یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ ان کی گرفتاری کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں تھی۔