بشار الاسد کی آمریت کے سیاہ عہد کے دوران لاکھوں شامی شہریوں پر بد ترین مظالم اور بہیمانہ تشدد کا انکشاف ہوا ہے۔
ترکیہ کی بین الاقوامی خبر ایجنسی اناطولیہ نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بشار الاسد کے عہد آمریت کے دوران شامی عوام پر ظلم و جبر کی ہولناک داستانوں کا احاطہ کیا ہے۔
اناطولیہ کی رپورٹ کے مطابق بشار انتظامیہ اپنے خلاف اٹھنے والی معمولی سی آوازوں کو بھی دبانے کیلئے 72 مختلف طریقوں سے شامی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بناتی تھی اور یہ مظالم ملک بھر میں 50 سے زائد جیلوں اور حراستی مراکز میں انجام دیئے گئے۔
شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق کے مطابق بشار حکومت نے کم از کم 12 لاکھ شامیوں کو گرفتار کیا اور انہیں خانہ جنگی کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ نیٹ ورک کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق یہ مراکز سول جیلوں، فوجی جیلوں، غیر سرکاری خفیہ حراستی مراکز اور سیکورٹی یونٹس کے تفتیشی مراکز پر مشتمل تھے، جو تقریباً تمام صوبوں میں موجود تھے۔
جب شامی اپوزیشن نے ملک کے مختلف علاقوں کا کنٹرول حاصل کیا، تو حلب، حماہ، حمص، السویداء اور دمشق کے عدرا جیسے مرکزی جیلوں کے قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ ان جیلوں میں سب سے بدنام زمانہ مقامات میں صیدنایا، المزة، القابون (دمشق)، البالون اور تدمر (حمص) شامل تھے۔
ان کے علاوہ بشار حکومت نے خفیہ حراستی مراکز بھی قائم کیے تھے، جو خاص طور پر تشدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ یہ مراکز بشار الاسد کے بھائی ماہر الاسد کی قیادت میں فوج کی چوتھی ڈویژن کے تحت کام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حکومت نے 2012 کے اوائل میں کچھ گھروں اور کھیل کے میدانوں کو بھی حراستی مراکز میں تبدیل کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق عوام کو عذاب دینے کے لیے جابر حکومت نے 72 مختلف قسم کے تشدد کا استعمال کیا، جس میں جسمانی، نفسیاتی، اور جنسی تشدد شامل تھا۔
دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں جبری مشقت اور قیدیوں کو تنہائی میں رکھنا شامل تھا۔ جسمانی تشدد کی ان گھناؤنی شکلوں میں قیدیوں کے جسم کے مختلف حصوں پر کھولتا پانی ڈالنا، سر کو پانی میں ڈبو کر سانس گھٹانے کا احساس دلانا، بجلی کے جھٹکے دینا، پلاسٹک کے بیگ کو جلا کر جسم پر ڈالنا اور قیدیوں کے جسم کے مختلف حصے جلانا شامل تھا۔
حکومت نے ناخن کھینچنے، بال نوچنے، کان اور دیگر اعضاء کو کاٹنے جیسے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے اور ان مظالم کے لیے قینچی اور دوسرے آلات کا سہارا لیا جاتا۔ اجتماعی جنسی تشدد بھی عام تھا، یہاں تک کہ مرد قیدیوں کے ساتھ بھی روا رکھا جاتا تھا۔