7 جنوری 2022 کو مری میں ایک برفانی طوفان آیا اور4 فٹ (1اعشاریہ 2 میٹر) سے زیادہ برف باری ہوئی جس سے 23 سیاح ہلاک ہو گئے جو برف باری دیکھنے آئے تھے۔ درجہ حرارت منفی 8 ڈگری سیلسیس (17اعشاریہ 6 F) تک گرنے سے زیادہ اموات ہوئیں۔
مری ہل اسٹیشن ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 40 کلومیٹر (25 میل) کے فاصلے پر واقع ہے اور سالانہ ہزار وں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ مری کا واقعہ ہر لحاظ سے افسوسناک تھا اور اس سانحہ میں ہر سطح پر ہم آہنگی کا فقدان ایک اہم عنصر تھا۔
ہلاکتیں سردی کی وجہ سے نہیں بلکہ کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے ہوئیں۔ اس واقعے سے ایک روز قبل پاکستان کے دوسرے حصوں سے لاکھوں لوگ برف باری دیکھنے کے لیے مری پہنچے تھے۔
ٹریفک حکام کے حوالے سے آنے والی خبروں میں انکشاف ہوا ہے کہ سانحہ سے قبل ہفتے مری میں 155000 سے زائد گاڑیاں داخل ہوئیں جن میں سے 135000 بحفاظت واپس آگئیں لیکن باقی گاڑیاں مری میں پھنس گئیں۔
برفباری کے باعث کئی گاڑیاں سڑکوں پر پھنسنے کی وجہ سے ہزاروں سیاحوں نے رات سڑکوں پر گزاری۔ برف باری منگل کی رات سے شروع ہوئی اور پورے ہفتے وقفے وقفے سے جاری رہی جس نے بہت سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیاکیونکہ مری پاکستانی سیاحوں کے لیے ایک مقبول مقام ہے اورجب یہاں برف پڑتی ہے تو سیاح دور دور سے کھنچے چلے آتے ہیں۔
سیاحوں نے شکایت کی کہ ہوٹلوں نے سیاحوں کی بڑے پیمانے پر آمد کا فائدہ اٹھانے کے لیے قیمتیں بڑھا دی ہیں جس سے بہت سے لوگ اپنی کاروں میں سونے پر مجبور ہوئے۔
کمرے جن کاکرایہ عام طور پر 6000سے10000 ہے اس کافی رات کا کرایہ 70000 روپے فی رات لیا جا رہا تھا جبکہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھادی گئی تھیں۔ ایک کپ چائے کی قیمت 40 روپے سے 700روپے تک کردی گئی۔اس کی وجہ سے اتوار کو ہیش ٹیگ بائیکاٹ مری ٹویٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ مری آنے اور جانے والے تمام راستوں کو مؤثر طریقے سے بلاک کر دیا گیا جس سے سیاح پھنس کر رہ گئے۔
زیادہ برفباری شروع ہوئی تو بہت سے لوگوں نے اپنی کاریں سڑکوں پر چھوڑ کر ہوٹلوں میں پناہ لینے کی کوشش کی، جس سے بھیڑ میں مزید اضافہ ہوا۔
ضلعی حکومت کے دفتر نے 5 جنوری کو ایک الرٹ جاری کیا تھا جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ شدید برف باری کے باعث ممکنہ طور پر 6 سے 9 جنوری تک علاقے میں سڑکیں بند ہو سکتی ہیں۔اس کے فوراً بعد مری کی تحصیل انتظامیہ نے ایک ٹریول ایڈوائزری جاری کی جس میں سیاحوں پر زور دیا گیا کہ وہ یہاں آنے سے پہلے موسم اور ٹریفک کی اپ ڈیٹس چیک کریں۔
مری راولپنڈی ضلع کے اندر صرف ایک تحصیل ہے، اس لیے ضلعی انتظامیہ نے خود اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے کوئی میٹنگ نہیں کی، حالانکہ ڈپٹی کمشنر نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ٹریفک وارڈنز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بھی بڑھتی ہوئی ٹریفک کی تیاری کے لیے ضلعی حکام کے ساتھ میٹنگ طلب نہیں کی۔
مقامی حکام کی لاپرواہی نے ٹریفک کا نظام درہم برہم کردیا، کچھ علاقوں میں 13000 سے زیادہ کاروں کو سڑکوں پر جانے کی اجازت دی گئی تھی جو ایک وقت میں صرف 4000 کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ کچھ جگہوں پر شدید برف باری اور تیز ہواؤں کی وجہ سے درخت گر گئے، سڑکیں بند ہو گئیں ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو سانحہ مری پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں کم از کم 23افراد کی کاریں برفانی طوفان میں پھنسنے کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ اگر این ڈی ایم اے نے تیار ی اور پیشگی اقدامات کیے ہوتے تواس سانحے سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا۔
سانحہ سے گزشتہ تقریباً پورے ہفتے سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں موسلا دھار بارش ہوئی جبکہ گلیات کے علاقے میں مری اور قریبی پہاڑی مقامات پر وقفے وقفے سے لیکن شدید برف باری ہوئی۔سیاحوں کی بڑی آمد کے باوجودحکام نے صورتحال کے قابو سے باہر ہونے کے لیے پورا ہفتہ انتظار کیوں کیا؟۔
یہ حقیقت ہے کہ ہل اسٹیشنوں کی گنجائش محدود ہے، مری میں صرف ایک مقررہ وقت میں 4000 کاروں کو جگہ دی جاسکتی ہےتو پھر اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟ ۔حکومت نے مری میں انتظامی انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے، اس کی حیثیت کو ایک مکمل انتظامی ضلع کا درجہ دینے، نئے تھانوں کے قیام اور قصبے کے مصروف ترین علاقوں میں دو نئے پارکنگ پلازے بنانے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تاہم تمام گورننگ باڈیز کے درمیان ہم آہنگی کی کمی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
دنیا بھر میں لوگ برف باری کے دوران گھروں کے اندر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ایسی صورتحال میں ریسکیو آپریشن ناممکن ہوتاہے۔ مری کا واقعہ نہ صرف قومی سطح پر ذمہ داری کے فقدان کا نتیجہ تھا بلکہ مادیت کی وجہ سے معاشرے میں مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔
گھر اور اسکول کی سطح پرعام لوگوں کو انسانیت کے بارے میں تعلیم دینے، قومی نصاب میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی کے تربیتی مضامین بشمول اخلاقیات اور قانون کی حکمرانی کی تعلیم کو شامل کرنے سے مسائل کے حل میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ دیگر شعبوں کے ماہرین معاشرے میں حساسیت کو فروغ دینے میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
سانحہ مری انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے کا عکاس تھا اور پورے معاشرے کی طرف سے اس واقعے میں انسانیت کو نظر نہیں آیا۔ اس واقعے نے حکومت سمیت تمام شعبوں کو بہت سے سبق سکھائے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حکومت گزشتہ تین سالوں میں مری کی ترقی میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کر سکی۔ حکومت کی جانب سے مری کو ضلع بنانے اور اسے میونسپل سٹی کا درجہ دینے کے ساتھ ہی موجودہ رہائشی ہوٹلوں اور مکانات کی رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد شہباز کے مزید کالمز پڑھیں:
پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجوہات
معاشی ترقی میں ڈیجیٹل پاکستان کا کردار