عرب عسکری اتحاد کےترجمان کرنل ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی دو آئل فیلڈز پر ہونے والے حملے میں ایرانی ساختہ اسلحے کے استعمال ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
کرنل ترکی المالکی کا جدہ میں پریس کانفرنس کےدوران کہنا تھا کہ ابھی تفتیشی عمل جاری ہے اور اس اوراس حوالےسے مزید شواہد سامنے جلد لائیں جائیں گے۔ انہوں نےکہا کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جانب سے حملے کی ذمے داری قبول کی گئی لیکن حقائق اس دعوے کے برعکس ہیں کیونکہ ہفتے کی صبح کیے گئے یہ حملے یمن سے نہیں ہوئے تھے۔
عسکری اتحاد کے ترجمان نےمزیدکہا کہ ہم ابھی تحقیقات کر رہے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ حملے کہاں سے کیے گئے، جلد یہ بات میڈیا کے سامنے لائی جائے گی کہ ڈرونز کو کہاں سے حملے کےلئے بھیجا گیاتھا۔
دوسری جانب حوثی باغیوں نے دوبارہ سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر حملے کی دھمکی دی ہے۔
حوثی ملیشیا کے ترجمان بریگیڈئر یحییٰ ساری کا کہنا ہے کہ وہ سعودی حکومت پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کے سبھی مقامات اُن کی دسترس میں ہیں اور کسی بھی مقام کو وہ منتخب کر کے اُس پر حملہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
دوسری جانب ایران نے ایک مرتبہ پھر کہاہے کہ ان کا سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں میں کوئی کردار نہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی کااپنے بیان میں کہناتھا کہ ہم ایران پر لگائے گئے حملوں کے الزامات کی سخت سے مذمت کرتے ہیں، یہ الزامات ناقابل قبول اور بے بنیاد ہیں۔
سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد عالمی منڈیوں میں خام تیل کے فی بیرل کی قیمت میں اضافہ پیدا ہوا ہے۔ اس حملے سے تیل کی سپلائی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایران کے خلاف کسی ممکنہ اقدام کا اشارہ دے دیا ہے۔