پاکستان کے استحکام کو افغانستان سے دوہرے جھٹکے سے شدید نقصان پہنچا ،پہلے روسی قبضہ جس نے عسکریت پسندی ، ہتھیاروں اور منشیات کے پھیلاؤ اور 30 لاکھ افغان مہاجرین کوپاکستان دھکیلا۔ دوسرا 2001 میں امریکی مداخلت کے غیر ارادی نتائج جس نے تنازع کو پاکستان میں دھکیل دیا اور عسکریت پسندی کو مزید ہوا دی۔
افغانستان اور پاکستان پشتون قومیت کے بندھن سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کے خدشات ، سیکورٹی مفادات ، جیو پولیٹیکل حرکیات ، سرحد پار تعلقات ،رابطہ اور تجارت کے باوجود کشیدہ تعلقات کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔
حالیہ مہینوں میں حکومت پاکستان کی جانب سے ٹھوس اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں سیکورٹی کی مجموعی صورتحال میں بہتری آئی ہے تاہم افغانستان اور خطے میں امن اور استحکام پاکستان کی معیشت کی مکمل بحالی اور نظام میں استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
ایسے حالات میں پاکستان کے ساتھ مثبت تعلقات استحکام اور ترقی کو فروغ دینے میں بہت آگے جا سکتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے پاس اس وقت علاقائی استحکام اور اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرحد پار تعلقات استوار کرنے کا بہترین موقع ہے۔
پاکستان افغان جنگ میں معاشی اور سیکورٹی دونوں لحاظ سے بھاری قیمت ادا کر رہا ہے،افغانستان کی صورت حال نے پاکستان کی معیشت کو کئی طریقوں سے منفی طور پر متاثر کیا جیسے کہ معیشت کے تمام بڑے شعبوں میں مجموعی شرح نمو کم ہوئی کیونکہ افغانستان میں خراب صورتحال کی وجہ سے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت نہیں ہوئی۔ جبکہ سیکورٹی کے لحاظ سے پاکستان کو ہزاروں اموات اور دیگر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس صورتحال نے پاکستان کی معمول کی معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کو متاثر کیا بلکہ پیداوارمیں بھی خلل پیدا ہوا۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی مصنوعات آہستہ آہستہ اپنے حریفوں کے سامنے اپنا مارکیٹ شیئر کھو چکی ہیں اورنتیجتاًمعاشی ترقی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہو سکی۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کا بہاؤ اور سرمائے کی آؤٹ سورسنگ کے منفی رجحانات نے صنعتی کارکردگی کومتاثر کیا ہے۔
سیکورٹی کی صورتحال سرمایہ کاری کے مستقبل کے بہاؤ کا کلیدی فیصلہ کن ہوگی۔ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں عسکریت پسندوں اور القاعدہ کے جنگجوؤں کی افغانستان سے مزید آمد شامل ہے اورموجودہ حالات مزید افغان مہاجرین کی آمد کا باعث بن سکتے ہیںجس کے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں منفی اثرات مرتب ہونگے جبکہ افغانستان کی صورتحال کا مثبت اثر پاکستان پر پڑے گا یعنی اعلیٰ سطح کے عہدیداروں کو تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے براہ راست مشغول ہونا چاہیے۔
ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف پشتونوں کی مشترکہ زبان اور ثقافت اعتماد سازی کا موقع فراہم کرتی ہے۔مذاکرات تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب شرکاء کھلے مکالمے کے ماحول کو فروغ دیں اور اختلافات کو حل کرنے کے لیے پہلے سے کوئی طریقہ کار قائم کریں۔ دوطرفہ موضوعات پر توجہ دیں جیسے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مشترکہ اثرات منشیات کی تجارت اور پاکستان میں افغان مہاجرین کی حیثیت ، ممکنہ ریگولرائزیشن اور ممکنہ واپسی اور بارڈر مینجمنٹ آپشنز کو دریافت کریں ۔اعتماد کا ماحول بنا کر تجارت ، سرمایہ کاری ، لوگوں کے تبادلے ، فوجی اور سیکورٹی مشقوں اور طالبان کی فتح کو تسلیم کرکے اعتماد بحال کیا جائے۔
افغانستان وسطی ایشیائی ممالک کے لیے پاکستان کے لیے زمینی پل کی طرح ہے ، اس لیے پاکستان وسط ایشیائی ممالک کے قدرتی وسائل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے افغانستان سے تعلقات کواہمیت دیتا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخی طور پر کشیدہ رہے ہیں تاہم پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے افغانستان کو ایک قابل عمل راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔
افغان حکام بھارت اور پاکستان کو افغانستان کے لیے دو بنیادی منڈیوں کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو باہمی فائدہ مند تجارتی تعلقات کے لیے مزید انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
افغان معیشت بنیادی طور پر زرعی ہے حالانکہ اس کا صرف 12 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے اور کسانوں نے حالیہ برسوں میں اس سے بہت کم کاشت کی ہے۔افغانستان میں زراعت (افیون پوست کو چھوڑ کر) قومی جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی ہے اور خدمات کے بعد دوسرا بڑا شعبہ ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ آبادی اور تقریبا 90 فیصد غریب دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور زراعت ان کی معاش میں اہم کردار ادا کرتی ہے اورزراعت اور معدنیات وہ دو شعبے ہیں جو مستقبل قریب میں معاشی نمو کو آگے بڑھانے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان اس حوالے سے بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے ، پاکستان کو افغانستان میں نئی صنعتیں کھول کر زرعی شعبے اور معدنی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان اور افغانستان کے حالات انتہائی کشیدہ رہے ہیں لیکن اب طالبان کی طرف سے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا عندیہ خوشگوار تبدیلی ہے تاہم تشویشناک بات تو یہ ہے کہ افغان طالبان نے معاملات کو پیچیدہ بنانے کے لیے تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھتے ہیں جنہیں پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے۔
ٹی ٹی پی چھوٹے پشتون عسکریت پسند گروہوں پر مشتمل ہے جو طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور افغانستان پاکستان سرحد کے ساتھ کام کرتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ اس وقت تک جنگ کرنے کے عزم کرچکے ہیں جب تک ایک آزاد پشتونستان حاصل نہیں کر لیتے جبکہ یہ ٹی ٹی پی ہزاروں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے تاہم بادی النظر میں طالبان حکومت کے ساتھ مضبوط اور پرامن تعلقات نے ایک پرامن اور خوشحال پاکستان اور افغانستان کی راہ ہموار کی ہے اور دونوں ممالک کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
رضوان اللہ
اسکول آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس ،
بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، بیجنگ ، چین۔
ای میل: rezwanullah1990@yahoo.com۔