میونخ: مغربی جرمنی اور بیلجیئم میں ہفتہ کے روز تباہ کن سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتے ہوئے 170 ہوگئی ہیں، ہفتے کے روز آنے سیلابی ریلے میں متعدد مکانات منہدم ، سڑکیں اور بجلی کی تاریں ٹوٹنے سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہا گیا ہے۔
گزشتہ 50 سال کے دوران جرمنی کو قدرتی آفت سیلاب کی بدترین تباہی کا سامنے ہے، جرمنی میں ابھی تک سرکاری سطح پر 143 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ پولیس کے سب سے زیادہ ہلاکتیں جنوبی ضلع اہرویلر میں ہوئی جہاں 98 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سینکڑوں افراد ابھی تک لاپتہ ہیں کیونکہ متعدد علاقوں میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے ان تک رسائی ممکن ہے ۔ جبکہ سڑکیں ٹوٹنے کی وجہ سے مواصلات نظام بھی دھرم برم ہے۔ تباہ حال شہروں میں مکین اور کاروباری افراد اپنے بچے کچھے سامنے کو جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
جرمنی کے صدر فرینک والٹر اسٹین میئر نے ریاست شمالی رائن ویسٹ فیلیا میں ایرفسٹڈٹ کا دورہ کیا جہاں تباہی سے کم از کم 45 افراد ہلاک ہوگئے۔ انہوں نے کہا ، “ہم ان لوگوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے اس قدرتی آفت کے نتیجے میں اپنے پیاروں ، رشتے داروں اور دوستوں کو کھو دیا ہے۔
کولون کے قریب ویسن برگ قصبے میں جمعے کے روز ایک ڈیم کے ٹوٹنے کے بعد سے 700 رہائشیوں کو نکال لیا گیا۔ ویسن برگ کے میئر مارسیل مورر نے کہا کہ رات سے ہی پانی کی سطح مستحکم ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا ، “یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ہمیں کہیں کہ حالات قابو میں ہیں مگر ہم پرامید ہیں کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ “
رائن لینڈ پلاٹینیٹ کی وزیر اعلیٰ نے بتایا ہے کہ طوفان نے ان کی ریاست میں انتہائی خراب حالات پیدا کر دیے ہیں۔ اس ریاست کی خاتون وزیر اعلیٰ مالو ڈریئر کا کہنا تھا، ”موسم کی شدید تباہی کا ابھی تک صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکا، درد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔” اس خاتون وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ “موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف لڑنے اور اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے انتہائی ضروری ہو چکے ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کے وزیر صحت ساجد جاوید کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا