آرمی چیف جنرل قمر جاوید جاجوہ کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی توسیع

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قومی سلامتی کے لیے مستحکم معیشت ایک اہم عنصر ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ
قومی سلامتی کے لیے مستحکم معیشت ایک اہم عنصر ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کو آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں6 ماہ مشروط توسیع کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو 6ماہ میں قانون سازی کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ججز کے 3 رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی،حکومت کی طرف سے کیس کا دفاع کرنے کے لیے اٹارنی جنرل انور منصور ، سابق وزیر قانون فروغ نسیم اور دیگر پیش ہوئے جس کے بعد سماعت کا آغاز کیا گیا۔

 چیف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمین توسیع کے حوالے سے فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ حکومت نے آرمی چیف کی مدمت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قوانین سے انحراف کیا،حکومت باربار مؤقف تبدیل کرتی رہی ، کبھی دوبارہ تعیناتی کبھی دوبارہ توسیع کا کہا جاتا رہا۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت نے موثر قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت مانگا تھا چھ ماہ کے بعد قانون سازی کا جائزہ لینگے،سپریم کورٹ کااپنے حکم میں کہناتھا کہ آئین کے تحت صدر مملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں تاہم حکومت نے آرمی چیف کی مدمت ملازمت میں توسیع کیلئے رولز کو فالونہیں کیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت کے دور ان ریمارکس دیئے کہ ہم نے آئین اور قانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا،کہہ دیا گیا کہ یہ تین ججز سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کہہ دیا گیا کہ بھارتی ایما پر کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کہہ دیا گیا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے،پوچھنا پڑگیا کہ ففتھ جنریشن وار کیا ہے؟۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کہاجاتا ہے کہ عدالت خود نوٹس لے،عدالت ازخود نوٹس کیوں لے؟حنیف راہی عدالت میں آئے ہیں،ہم انہیں جانے نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگائے گئے ۔

مزید پڑھیں : آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ،حکومت نےنیامسودہ تیارکرلیا 

چیف جسٹس نے کہاکہ بھارت اور دیگرممالک میں آرمی چیف کی تعیناتی اورمدت واضح ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب عدالت میں معاملہ پہلی بار آگیا ہے تو واضح ہونا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی ہے ،آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون بنانے میں حکومت کو کتنا وقت درکار ہے؟ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ آئندہ آرمی چیف توسیع کے حوالے سے قانون سازی کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا جائے جس پر عدالت نے مشروط رضامندی ظاہر کی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے توسیع کردی تو اسے قانونی مثال قرار دیا جائے گا۔ آپ نے 3 ماہ کا عرصہ مانگا ہے، توسیع کردیتے ہیں۔ آپ سمری سے 3 سال کی مدتِ ملازمت کے الفاظ حذف کردیں۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ اگرمدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا،مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج آپ کہہ رہے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آرمی رولز کی کتاب پر لکھا ہے غیرمتعلقہ بندہ نہ پڑھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پنشن ملتی ہے یا نہیں، پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کرسکے۔

جسٹس مظہرعالم نے کہاکہ یہ بھی طے کرلیا جائے آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپ کو لاء میں کچھ چیزیں کلیئر کرنا پڑیں گی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ قانون میں مدت ملازمت کا کوئی ذکر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون تو آپ کو بنانا پڑیگا تب ہی کلیئر ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہم قانون بنائیں گے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ کیا آپ چار پانچ ماہ میں قانون بنالیں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کتنے ماہ میں قانون بنالیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ تین ماہ کا وقت دے دیں۔

یہ بھی پڑھیں : ملکی اداروں کی مدد کے لیے آئین کےتحت فرائض سرانجام دیں گے، آرمی چیف 

چیف جسٹس نے جنرل کیانی کی توسیع اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگ لیں اورریمارکس دیئے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان دستاویزات میں کیا لکھا ہے،، جائزہ لیں گے جنرل کیانی کی توسیع کن بنیادوں پرہوئی تھی، 15 منٹ تک جنرل کیانی کی توسیع کی دستاویزات پیش کردیں۔

بعدازاں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔

سماعت کے دور ان آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم روسٹرم پر آئے تو اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ان کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مسئلے عدالت میں آتے ہیں تو حل ہی ہوتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ عدالت میں آئیگا ہی نہیں تو حل کیسے ہوگا؟۔

آرمی چیف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ 243 میں بہتری کرلیں گے، حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243 میں تنخواہ، الاونس اور دیگرچیزیں شامل کریں گے جب کہ اس کا بیان حلفی بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم سے 4 نکات پر مشتمل بیان حلفی طلب کرلیا اور جنرل قمرجاوید باجوہ کو کام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دینے پر رضامندی ظاہرکردی۔

وقفہ کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع چیلنج کی گئی، حکومت ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی، کبھی دوبارہ تعیناتی کبھی توسیع کا کہا جاتا رہا جب کہ حکومت نے آرٹیکل 342 اور ریگولیشن کی شق 255 پر انحصار کیا۔

عدالت عظمیٰ کاکہناتھا کہ آج عدالت میں نئی سمری اور نوٹیفکیشن پیش کیے گئے جس کے مطابق جنرل باجوہ کو آرمی چیف تعینات کیا گیا، تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ رہے ہیں جب کہ آرمی چیف کو قانون سازی سے مشروط 6 ماہ کی توسیع دی گئی ہے۔

Related Posts